اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ملک میں غم و غصے کا سامنا

ایک سروے کے مطابق 21 فیصد اسرائیلی چاہتے ہیں کہ اس تنازع کے خاتمے کے بعد نتن یاہو وزیراعظم رہیں جبکہ 66 فیصد نے کہا کہ اس منصب پر ’کسی اور‘ کو ہونا چاہیے اور 13 فیصد کوئی فیصلہ نہیں کرسکے۔

10 اکتوبر 2023 کو سینٹیاگو میں اقوام متحدہ کے اقتصادی کمیشن برائے لاطینی امریکہ اور کیریبین کے صدر دفتر کے سامنے فلسطینیوں کی حمایت اور غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے خلاف ریلی کے دوران ایک شخص نے ایک پمفلٹ اٹھا رکھا ہے، جس پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے لیے ’مطلوب‘ کا لفظ لکھا ہوا ہے (اے ایف پی)

سات اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے نے اسرائیلیوں کو تو اکٹھا کر دیا ہے لیکن حکومت کے لیے بہت کم محبت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، جس پر ملک کے دفاع کو کمزور کرنے اور اسے غزہ کے تنازع میں گھسیٹنے کا الزام لگایا جا رہا ہے، جس نے پورے خطے میں ہلچل مچا دی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کچھ بھی ہو، طویل سیاسی کیریئر کے بعد وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے لیے فیصلے کا دن آنے والا ہے اور تقریباً 1300 اسرائیلیوں کی اموات نے عوامی غم و غصے کو مزید بھڑکا دیا ہے۔

اسی صورت حال میں اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر کو ہسپتال میں داخلے سے روک دیا گیا۔ دوسرے وزیر کے محافظ پر ایک غمزدہ شخص نے کافی پھینک دی۔ تیسری وزیر کو اس وقت ’غدار‘ اور ’بزدل‘ جیسے نعروں کا سامنا کرنا پڑنا جب وہ اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو تسلی دینے آئی تھیں۔

ایک اور پہلو سماجی پولرائزیشن ہے اور نیتن یاہو کے مذہبی-قوم پرست حکمران اتحاد کی عدالتی اصلاحات کی مہم نے بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا۔

ایک سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اسرائیلی اخبار ’ یدیعوت احرونو‘ نے ’اکتوبر 2023 کی شرمناک ناکامی‘ کی ہیڈلائن شائع کی، جس کا مطلب اکتوبر 1973 میں مصر اور شام کے مشترکہ حملے میں اسرائیل کی ناکامی کو یاد کرنا تھا، جس کے نتیجے میں اس وقت کی وزیراعظم گولڈا میر کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

اس بے دخلی میں گولڈا میر کی مرکزی بائیں بازو کی لیبر پارٹی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقبوضہ بیت المقدس کے شالوم ہارٹ مین انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلو اموتز آسا ايل نے وزیراعظم نتن یاہو اور ان کی طویل عرصے سے غالب، قدامت پسند لیکود پارٹی کے لیے بھی اسی طرح کی قسمت کی پیش گوئی کی۔

ان کا کہنا تھا: ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی انکوائری کمیشن ہے یا نہیں، یا وہ غلطی تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ یہ سب اہم ہے کہ ’عام اسرائیلی‘ کیا سوچتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک ناکامی ہے اور اس کے ذمہ دار وزیراعظم ہیں۔‘

اموتز آسا ايل نے مزید کہا: ’وہ (حکومت سے) جائیں گے اور ان کے ساتھ ان کی پوری اسٹیبلشمنٹ بھی۔‘

ماریوو (Maariv) اخبار میں شائع ہونے والے رائے عامہ کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ 21 فیصد اسرائیلی چاہتے ہیں کہ اس تنازع کے خاتمے کے بعد نتن یاہو وزیراعظم رہیں جبکہ 66 فیصد نے کہا کہ اس منصب پر ’کسی اور‘ کو ہونا چاہیے اور 13 فیصد کوئی فیصلہ نہیں کرسکے ہیں۔

سروے کے مطابق اگر آج انتخابات ہوتے ہیں تو لیکود پارٹی اپنی ایک تہائی نشستوں سے محروم ہو جائے گی جبکہ ان کے مرکزی حریف بینی گنتس کی سینٹرسٹ نیشنل یونٹی پارٹی ایک تہائی سے آگے بڑھے گی اور وزارت عظمیٰ کے لیے سیٹ اپ کرے گی۔

اسرائیل کی ہنگامی جنگی کابینہ تشکیل

لیکن اسرائیلی اب ووٹنگ نہیں چاہتے، وہ کارروائی چاہتے ہیں اور سابق فوجی سربراہ بینی گنتس نے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر نیتن یاہو کی ہنگامی کابینہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

اعلیٰ حکام اور غیر ملکی سفیروں کے ساتھ مصروف نیتن یاہو نے عوام کے ساتھ اپنی ملاقاتیں محدود کر دی ہیں۔ انہوں نے حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے تقریباً 200 اسرائیلیوں کے رشتہ داروں سے ملاقات کی۔ اس موقعے پر ٹی وی کیمرے موجود نہیں تھے۔

نیتن یاہو نے ابھی تک ذاتی احتساب کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے، یہاں تک کہ ان کے اعلیٰ جنرل، وزیر دفاع، قومی سلامتی کے مشیر، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ اور انٹیلی جنس سربراہان نے اسرائیل کی تاریخ میں شہریوں پر بدترین حملے کی اطلاع اور اسے روکنے میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے اپنے جوابی حملے کے لیے مغرب کی حمایت حاصل کر لی ہے، لیکن اگر غزہ پر زمینی حملے میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی اموات اور فوجی نقصانات ہوتے ہیں، تو یہ (حمایت) ختم ہو سکتی ہے۔

جنگ نتن یاہو کی خارجہ پالیسی کے دو اہم ستونوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر سکتی ہے۔ ایک سعودی عرب کے ساتھ امن عمل، جو اب رک چکا ہے اور دوسرا ایران کو روکنا، جس نے حماس کے حملے کو سراہا ہے۔

فوجی منصوبہ سازوں کا کہنا ہے کہ غزہ کا تنازع، جس کا بیان کردہ ہدف حماس کا خاتمہ ہے، مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔

اموتز آسا ايل نے کہا کہ نیتن یاہو اس مدت کے دوران سیاسی جنگ بندی کا لطف اٹھائیں گے، تاہم یہ ایک الگ سوال ہے کہ ان کی صحت اس کی اجازت دے گی یا نہیں۔ جولائی میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے احتجاج کے دوران انہیں ایک پیس میکر لگایا گیا تھا۔ وہ ہفتے کو 74 سال کے ہو جائیں گے۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی معاشرے کے اندر دراڑیں اور جس حد تک انہوں نے قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا، اس کے ذمہ دار صرف نتن یاہو نہیں، بلکہ ذمہ داری کا تعین زیادہ وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔

چینل 12 ٹی وی کے سیاسی تجزیہ کار امیت سیگل نے ٹیلی گرام پر کہا: ’ہم بھائی بننا بھول گئے اور جنگ چھڑ گئی۔ چیزیں ٹھیک کرنے میں دیر نہیں لگتی، لہذا اب لڑائی بند کریں۔‘

کابینہ کے کچھ وزرا پر طنز کے نشتر برساتے ہوئے اموتز آسا ايل نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی اتحاد میں دراڑیں پہلے ہی نظر آ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’آپ گلیوں میں ایسے لوگوں کو سنتے ہیں جو فطری طور پر لیکود پارٹی کے حامی ہیں اور  ان کے بارے میں غصے کے ساتھ بات کرتے ہیں۔‘

بقول اموتز آسا ايل: ’غصے میں صرف اضافہ ہونے والا ہے اور نتن یاہو کی اپنی ذمہ داری سے بچنے کی یہ واضح کوشش صرف لوگوں کو غصے میں مبتلا کر رہی ہے۔ وہ صرف یہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ ’ہم نے معاملہ بگاڑ دیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا