اسرائیل اور اس کی سرپرست عالمی طاقتوں نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کو عملاً ایک جنگ کی شکل دے دی ہے۔
اسرائیل کا اس بارے میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اپنے جنگی ہیجان میں اضافہ کرنا حیران کن نہیں، لیکن جس طرح امریکہ نے اپنے دو بحری بیڑوں کو متحرک کیا اور سخت ترین رد عمل دیا وہ آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ امریکی رویہ اور اقدامات الاؤ کو زیادہ بھڑکانے اور پھیلانے کی کوشش میں حصہ داری ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
امریکہ نے اپنے دو بحری بیڑوں یو ایس ایس گیرالڈ آر فورڈ اور یو ایس ایس آئزن ہاور ایئر کرافٹ کیریئر کو جس رفتار سے بحیرۂ روم میں بھجوایا اور اسرائیل کے لیے تعینات کیا ہے، ہم بحیرہ عرب کے قرب میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے یہ مزید حیران کن ہے۔
ہم امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کی آس امید میں اپنا ملک تڑوا چکے تو بھی بحری بیڑہ نہیں آیا تھا، لیکن اسرائیل کے لیے سرعت کا یہ امریکی مظاہرہ غیر معمولی ہے۔ یہ دونوں امریکی بیڑے حماس کی سرکوبی، اسرائیل کے تحفظ اور اسرائیل کے خلاف حماس سمیت کسی بھی گروپ یا ملک کی سرگرمی کو روکنے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ امریکی بیڑے اسرائیل کی دفاعی لائن بھی ہیں اور بوقت ضرورت ہراول دستہ بھی ہوں گے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ہنگامی دورہ تل ابیب کے فوری بعد مشرق وسطیٰ کے دیگر کئی ملکوں کا دورہ کیا ہے۔ اس دوران بلنکن کا ہر ایک کے سامنے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا گھر گھر جا کر اعلان کرنا معنی خیز ہے۔ ایسا باور کروایا گیا کہ جیسے اسرائیل پر حماس کا حملہ امریکہ نے اپنے اوپر حملہ قرار دے دیا ہے اور امریکی وزیر خارجہ کے دورہ تل ابیب کے اختتام کے فوری بعد امریکی وزیر دفاع بھی اسرائیل پہنچ گئے۔
ادھر واشنگٹن میں امریکی صدر جو بائیڈن کا پے در پے اسرائیل کے حق میں یکطرفہ بیانات دینا اور اہم ملکوں کے سربراہان سے رابطے کر کے اسرائیل کے حق میں بیانیہ تشکیل دینا اہم ہے۔ اسی ضمن میں صدر جو بائیڈن نے حماس کے راکٹ حملوں کو یہودیوں کے لیے ہولو کاسٹ کے بعد بدترین خونی دن کا نام دیا۔ امریکہ ہی سے اس دن کو اسرائیل کا ’نائن الیون‘ قرار دینے کی آوازیں بھی سنی جا رہی ہیں۔
مزید یہ کہ صدر جو بائیڈن نے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس پر یہ الزام بھی عائد کر دیا ہے کہ حماس غزہ کے باسیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ گویا اسرائیل کی غزہ پر مسلسل بمباری ان کے نزدیک تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔
اسرائیل کے حق میں امریکہ کا رویہ جس قدر کھلا، واضح اور بےباکانہ ہے، اس کے قریب کی اگر کوئی مثال ہے تو وہ سب سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے بعد برطانیہ کی ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک اس معاملے میں امریکی پیروی میں دست بستہ نظر آتے ہیں۔ اتفاق سے پیروی و اتباع کے اس میدان میں بعض مسلم ممالک بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔
عالم اسلام سے بعض ملکوں نے اسرائیلی بمباری اور غزہ کے اسرائیلی محاصرے کے خلاف بیانات دیے ہیں۔ اسی طرح غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا کر کے انہیں غزہ کے جنوب میں صحرائے سینا کی طرف دھکیلنے کی اسرائیلی چال کو مسترد کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عرب لیگ کا موقف بھی فلسطینیوں کے غزہ سے جبری انخلا کے خلاف سامنے آیا ہے، لیکن آنے والے دنوں میں غزہ کے اندر اور غزہ سے باہر کا منظر کیا ہوتا ہے، اس کا انحصار بیانات اور موقف سے زیادہ فیصلوں اور اقدامات پر ہو گا، ان فیصلوں اور اقدامات کا امکان زیادہ تر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی جانب سے ہی ہونا ہے کہ وہ عالم اسلام کی طرح اس معاملے میں محض بیانات پر اکتفا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعے کے پھیلاؤ کا انحصار بھی انہی فیصلوں اور اقدامات پر ہو گا۔
بلاشبہ مشرق وسطیٰ میں شروع ہو چکی اس جنگ کے لیے پیٹرول کے چھڑکاؤ کا خطرہ موجود ہے۔ اس میں اگلے دو تین دن کافی ہوں گے۔ پہلے امریکی اور مغربی شہری اسرائیل اور اس کے قرب وجوار سے بحفاظت اپنے ملکوں کو لوٹ سکیں۔ پھر اسرائیل اپنی آرٹلری اور آرمڈ کور کو غزہ میں داخل کرنے کی پوزیشن میں آ سکے۔ نتیجتاً معاملات کا رخ اور رفتار مختلف ہو جائے گی، مگر اس بارے میں فی الحال بات کرنے کے بجائے دنیا میں بدلاؤ کی صورت حال کو سفارتی و سیاسی اور کسی قدر معاشی پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا پہلے ہی اپنے یک محوری انداز سے نکلنے کی کوشش میں ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران پیش آنے والے کئی واقعات نے اس سمت میں پیش رفت کا سامان کیا ہے۔ عراق و لیبیا کی جنگیں بھی اپنا خاموش اثر رکھتی ہیں، لیکن افغانستان پر 15 اگست 2021 سے طالبان کا فاتحانہ قبضہ بہرحال ایک سنگ میل بن کر سامنے آیا ہے۔
یوکرین پر روسی حملہ بھی ایک علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست و معیشت کی حرکیات جس طرح بروئے کار تھیں، اب ان میں بدلاؤ آ رہا ہے۔ اس بدلاؤ کا امریکہ کے لیے سخت غیر متوقع اظہار یوکرین جنگ کے بعد اوپیک پلس کے پلیٹ فارم سے سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافہ نہ کرنے کی صورت میں کیا تھا۔
صرف یہی نہیں سعودی عرب نے چین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات قائم کرنا شروع کر دیے۔ ولی عہد شہزادہ سلمان کی جواں سال قیادت میں یہ ایک مضبوط اور دور رس قدم تھا۔ چین، ون روڈ ون بیلٹ کے تصور کا تخلیق کار اور پیش کار ہی نہیں بلکہ ایک نئی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے، جس کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ اپنی معاشی سہولت اور کاروباری وسعت کی بنیاد پر وہ عالمی منظر نامے پر امریکہ سے آگے نکلنے کا پوٹینشل رکھتا ہے۔ سعودی عرب نے چین کو مشرق وسطیٰ میں گھسنے کا جو موقع دیا، وہ غیر معمولی تھا۔
سعودی عرب اور ایران دونوں بیک وقت چھتری تلے بیٹھ کر باہمی نارملائزیشن کی بنت کر رہے تھے۔ یہ ایک عجیب منظر تھا کہ امریکہ سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کی کوشش کر رہا تھا مگر سعودی عرب نے اسرائیل کی ضد اور امریکہ کے ناپسندیدہ ملک ایران کے ساتھ معاملات اچانک نارمل کر لیے۔ یوں اس زیر نظر موضوع ’ری الائینمنٹ‘ کو ایک مہمیز اسی وقت مل گیا تھا۔ اب اس کے اگلے پرت کھلنے کا امکان آنکھیں بند کر کے رد کرنا مشکل ہے۔
رواں ماہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کا حملہ ایک اور بڑی، غیر متوقع اور حیران کن حقیقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی صلاحیت و مہارت دیسی طرز کے گھریلو ساختہ راکٹ اور ہاتھوں میں پتھر اٹھانے والے غزہ کے نوجوانوں کے سامنے بےبس نظر آئی۔
یقیناً اسرائیل اب فلسطینیوں پر مسلسل بمباری اور امریکی مدد سے اپنی فوجی ساکھ کو سنبھالا دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، تاہم جتنا نقصان اسرائیل کی جنگی و فوجی قوت کو ہو گیا ہے اور اسرائیل کا جو تعارف سات اکتوبر سے سامنے آیا ہے، اس کے اثرات آگے بھی چلیں گے۔
سات اکتوبر کے بعد خطے کے اندر سے سعودی عرب نے بالواسطہ ہی سہی، اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کا عمل معطل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
ادھر روس نے سلامتی کونسل میں اسرائیل غزہ تنازعے کے بارے میں پیش کردہ اپنے مسودے میں مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراتے ہوئے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ روس نے اس بارے میں یورپی کمیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ یورپی کمیشن نے غزہ پر مسلسل اسرائیلی بمباری سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کو چین سے شکایت پیدا ہوئی ہے کہ چین نے حماس کی مذمت نہیں کی جبکہ چین کے وزیر خارجہ نے بھی امریکہ کے ساتھ اپنے مکالمے میں امریکہ کے اسرائیل و فلسطین کے بارے میں طور اطوار کو بالواسطہ انداز میں ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ، اسرائیل حماس تنازعے کے بارے میں تعمیری اور ذمہ دارانہ انداز اختیار کرے۔
ایران کا اس تنازعے اور اسرائیل کے بارے میں مؤقف واضح اور دو ٹوک ہے۔ ایک جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے سات اکتوبر کے فوری بعد خطے کا دورہ کیا ہے تو دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے اثاثوں سے رابطہ کیا ہے اور ممکنہ چیلنجوں اور حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی حزب اللہ کے سربراہ سے بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ باقی کا منظر لبنان سے جڑی اسرائیلی سرحد سے ابھرتا دیکھا جا سکتا ہے۔
نئی ورلڈ الائنمنٹ جنگ کی صورت میں فوری سامنے نہ بھی آئی تو سیاسی، سفارتی اور معاشی تناظر میں اس کو روکنا مشکل ہو گا۔ اسرائیل پر حیران کن اور تباہ کن راکٹ حملوں نے خطے کی سیاست کا پانسہ نہیں پلٹا تو سمت اور رفتار تبدیل کرنے میں اپنا کام ضرور دکھا دیا ہے۔ اب اس سوال کہ آیا یہ راکٹ حملے اسرائیل کے ساتھ خطے میں نارملائزیشن کا عمل روکنے کے لیے ہی کیے گئے تھے؟ سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا حماس اس سوچ کو اکیلے یہاں تک لا سکتی تھی؟ یا اس کے دائیں بائیں جو موجود تھے، کیا وہ اسے بیچ منجھدھار کے چھوڑ کر چلے جائیں گے، خصوصاً ایسے وقت میں جب اسرائیل کی قوت اور دفاعی وفوجی نظام بری طرح بے نقاب ہو گیا ہے؟
اب خطے میں امریکہ کے اس تھانیدار کی تھانے داری کون اور کیوں برداشت کرے گا۔ یہ تو خود خطے کے عرب ملکوں کے لیے خوش آئند ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خوف اور دباؤ میں اب ایک حد تک ہی رہنے پر مجبور ہوں گے، اس سے زیادہ نہیں۔
یوکرین میں جنگ پہلے ہی جاری تھی، اب مشرق وسطیٰ میں بھی جنگ کا الاؤ بھڑک اٹھا ہے۔ کیا دنیا کے دو اہم خطوں میں جنگ کا جاری رہنا موجودہ ورلڈ الائنمنٹ کو ڈسٹرب نہیں کرے گا؟
اسرائیل نے غزہ پر بمباری اور اپنی نئی جنگی تدابیر کے ساتھ ساتھ اپنی سیاست اور انتظام و انصرام کو بھی ری الائن کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی جنگی کابینہ میں اپوزیشن اور حکمران اتحاد کا ایکا اسی بات کا مظہر ہے۔ اتوار کے روز اس جنگی کابینہ کا پہلا اجلاس بھی کر لیا گیا ہے۔
ایسے میں مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جن کے بغیر مشرق وسطیٰ، مشرق وسطیٰ نہیں اور جو ملک کسی مصنوعی ایجاد یا بندوبست کا شاخسانہ نہیں ہے۔ وہ اپنے علاقائی مفادات، سلامتی، معاشی استحکام اور سیاسی بنت کو ماضی کے برسوں میں ہی کیوں فریز کیے رکھیں گے۔
اس امر کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ غزہ کے باسیوں کے غزہ سے جبری انخلا کی اسرائیلی مہم کو خطے کے ملک اپنے جغرافیائی نظم کے لیے نئے چیلنجوں کے طور پر دیکھیں۔
فلسطینیوں کے اس ممکنہ جبری انخلا کو اسرائیل کی مستقبل کی سرحدی چھیڑ چھاڑ اور جنگی حربوں کے حوالے سے سوچنا شروع کر دیں کہ کل کلاں اسرائیل جبری طور پر نکالے گئے ان فلسطینیوں کا پیچھا کرتے ہوئے کہاں تک پہنچنے اور مارنے کی کوشش کر سکتا ہے، جس سے اسرائیل کے ہمسایہ ملکوں کا امن واستحکام اور معاشی ترقی کا پہیہ کس حد تک متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کا مجوزہ جغرافیہ اور سرحدیں تو پہلے ہی ہر ایک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اسرائیل بھی اہل غزہ کو بنا سوچے سمجھے غزہ کے جنوب میں صحرائے سینا کی طرف دھکیل نہیں رہا، اسی صحرائے سینا میں بنی اسرائیل 40 سال تک بھٹک بھٹک کر خوار ہوتے رہے تھے۔
اب یہ بنی اسرائیل فلسطینیوں کو صحرائے سینا کی طرف دھکیل کر اسی مشکل اور مصیبت میں دیکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ یہودی ہولو کاسٹ سے گزرے تو اب اسرائیل نے اسی ہولو کاسٹ ٹائپ واقعات کو فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار بنا لیا۔
بات عالمی سطح پر نئی الائنمنٹ کی ہو رہی تھی۔ ممکن ہے یہ الائنمنٹ سست روی سے آگے بڑھے کہ خطے کے کئی ملک دبے پاؤں آگے بڑھنے کے آرزو مند ہو سکتے ہیں اور کئی ملک دبے دبے سے رہنے کے ماحول میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ بعضوں کو بیرونی دباؤ اور ان کے اندرونی مسائل انہیں اٹھنے اور کھڑے ہونے نہیں دیتے۔
تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ روس، چین اور ان کے اہم اتحادی ملک اس سلسلے میں کسی معذرت خواہانہ انداز کے اسیر ہوں گے۔ عالمی سطح پر بعض ملک پہلے جو بات امریکہ کے حوالے سے سوچتے تھے، اب مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اسرائیل کے بارے میں اسی شعور کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔
امریکہ کے لیے افغانستان میں طالبان کا قبضہ اور اسرائیل کے لیے حماس کے حیران کن راکٹ حملے رسوا کن بھی رہے اور تباہ کن بھی۔ ان واقعات کے باعث دونوں کا بھرم اور دھاک مائل بہ خاک ہوئے ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور اسرائیل کے لیے بچاؤ اور عزت کا راستہ یہی ہے کہ نوشتہ دیوار کو پڑھیں اور اپنی خواہشات کی ٹانگیں پھیلانے کے بجائے حقیقت پسندانہ طرز فکر اختیار کرتے ہوئے جیو اور جینے دو کی سوچ کو راستہ دیں۔ بصورت دیگر دنیا تو تبدیلی کا موڑ مڑنے کے قریب تر ہے۔
امریکہ نے اپنے حق میں موجود الائنمنٹ کے سبب دنیا کو امن، سکون اور خوشحالی سے جینے کا موقع کم اور لڑتے رہنے کا موقع اور ماحول زیادہ دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ رہی کہ امریکہ کی جابرانہ قوت کی نمود ہیرو شیما پر ایٹمی بم پھینکنے سے ہوئی تھی۔ پھر اس نے عالمی برادری کو ویت نام سے افغانستان تک کی جنگوں کا تحفہ دیا۔ اس لیے جو ملک بھی اسی نئی عالمی الائنمنٹ کے موقع کو بروئے کار لانے میں پہل کرے گا۔ دنیا کی قیادت کرنے والوں میں شامل ہو گا۔
ایک پہلو اور بھی دیکھنے کے لیے اہم ہے۔ غزہ سے طلوع ہونے والے سات اکتوبر نے سب سے پہلے اسرائیل کے اندر سیاسی ری الاٹمنٹ ممکن بنا دی۔ نتن یاہو نے اپنی اپوزیشن کے ساتھ مل کر جنگی کابینہ اسی سبب قائم کی، جس کا اتوار کے روز پہلا اجلاس بھی ہو گیا۔ اسرائیل سے یورپ کے لیے نکلنے والے اب تک کے ہزاروں یہودی بھی اسرائیل کے سماجی، معاشی اور سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کا نکتہ آغاز بن رہے ہیں۔
ایک جانب اسرائیل کے اندر اگر یہ ری الائنمنٹ ہو چکی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ایران اور سعودی عرب کے درمیان رواں سال کے شروع میں یہی علامات سامنے آ چکی ہیں۔ اب سعودی عرب نے نارملائزیشن کا عمل معطل کرنے کا بالواسطہ عندیہ دے کر خطے میں ری الائنمنٹ کے سلسلے میں ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے۔ البتہ فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس اور الفتح کی طرف سے ایسے اشارے کا انتظار ہے کہ وہ غزہ اور حماس کے بارے میں محمد دحلان کی سوچ کو ہی جاری رکھتی ہے یا نئی سوچ کی طرف پلٹتی ہے، خصوصاً ایسے ماحول میں جب محمد دحلان کی خدمات بالواسطہ طور پر فلسطین سے باہر اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے لیے مختص ہو چکی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہو گا کہ یہ ری الائننگ کے یہ چھوٹے واقعات ایک بڑی اور نئی عالمی الائنمنٹ کو آگے بڑھ کر ترتیب دینے میں کردار ادا کرتے ہیں یا ایک بڑی الائنمنٹ جس کے لیے چین اور روس عالمی سطح پر پہلے سے اپنے بعض پرانے اور نئے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کوشش کر رہے ہیں، اس کا حصہ بنتے ہیں۔
لیکن اہم ہو گا کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اس بارے میں کس طرح کا ردِ عمل دیتے ہیں۔ یوکرین کے بارے میں کیا امریکہ مغربی دنیا کے دماغ سے سوچنا شروع کر سکے گا اور کیا مشرق وسطیٰ کے بارے میں مغربی ممالک امریکہ کی اندھی تقلید کرنے پر آمادہ رہیں گے؟ نیز یہ امریکہ اور مغربی اقوام ماضی کی طرح جتھہ بندی جاری رکھتی ہیں یا ان میں بوجوہ آ چکے فاصلے اب مقابلتاً واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کا انحصار ان کے معاشی مفادات پر ہو گا۔
یقیناً باقی دنیا کو بھی اپنے مفادات کے مطابق ہی فیصلے کرنے کا حق ہے۔ یہ سوچ نئی ورلڈ الائنمنٹ کی روح ہے کہ جنگوں میں پڑے رہنے سے بہتر ہے کہ اپنے مفادات کا تعین نئے طریقے سے علاقائی اور عالمی سطح پر کرنے کی شروعات کی جائیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔