اسرائیل کی حمایت کرنے پر ملائیشیا جرمن کتاب میلے سے دستبردار

فرینکفرٹ کتاب میلے کے ڈائریکٹر نے کہا تھا کہ فرینکفرٹ کتاب میلہ ’اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کے لیے کھڑا ہے۔‘

فرینکفرٹ بک فیئر کا شمار دنیا کے اہم کتابی میلوں میں سے ایک ہے (کری ایٹو کامنز)

ملائیشیا کی وزارت تعلیم نے فرینکفرٹ کتاب میلے میں شرکت سے انکار کر دیا ہے کیوں کہ دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلے پر فلسطینیوں کی آواز دبانے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعے میں اسرائیل کے حق میں موقف اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مسلم اکثریتی ملک ملائیشیا کی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ وہ ’فلسطین میں اسرائیل کے تشدد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔‘

فرینکفرٹ کا سالانہ کتاب میلہ بدھ سے شروع ہو کر اتوار تک جاری رہے گا۔ ادبی تنظیم ’لٹ پروم‘ نے اعلان کیا تھا کہ وہ عسکریت پسند گروپ حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل میں حملے کی وجہ سے فلسطینی مصنف کے ناول کو ایوارڈ دینے کی تقریب ملتوی کر دے گی۔ اس کے بعد کتابی میلہ تنقید کی زد میں آ گیا۔

میلے کے منتظمین نے فیس بک پوسٹ میں کہا کہ وہ اس سال کے 75 ویں ایڈیشن میں یہودی اور اسرائیلی آوازوں کو خصوصی طور پر ’نمایاں‘ کریں گے۔

فرینکفرٹ کتاب میلے کے ڈائریکٹر جوئرگن بوس نے کہا کہ فرینکفرٹ کتاب میلہ ’اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کے لیے کھڑا ہے۔‘

ملائیشین وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ ’کتاب میلے میں (شرکت نہ کرنے) کا فیصلہ حکومت کے اس مؤقف کے عین مطابق ہے کہ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور فلسطین کی مکمل حمایت کی جائے۔‘

ملائشیا جس کی 75 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے، فلسطین کاز کی حمایت میں ایک دیرینہ اور مستقل پالیسی کا حامل ہے۔ ملائشیا نے تاریخی طور پر فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کا حامی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ  ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست موجود ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیر کو کوالالمپور کے صدر انور ابراہیم نے کہا کہ کوالالمپور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی مذمت کرنے کے لیے مغربی دباؤ سے اتفاق نہیں کرتا۔

انور نے پارلیمنٹ کو بتایا ’کہ میں نے کہا تھا کہ ہمارے بطور پالیسی حماس کے ساتھ ہمارے پہلے سے تعلقات ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘

’اس طرح ہم ان (مغرب) کے دباؤ ڈالنے والے رویے سے متفق نہیں ہیں کیوں کہ حماس نے بھی انتخابات کے ذریعے غزہ میں آزادانہ طور پر کامیابی حاصل کی ہے اور غزہ کے عوام نے انہیں قیادت کے لیے منتخب کیا ہے۔‘

سات اکتوبر کی علی الصبح راکٹوں کی بارش میں حماس کے سینکڑوں عسکریت پسند موٹر سائیکلوں، پیراگلائیڈرز اور فور وہیل ڈرائیوز کے ذریعے غزہ کی پٹی سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئے اور قریبی قصبوں اور دیہات میں موت، تباہی اور مایوسی پھیلا دی۔

عسکریت پسندوں کے گروہ اچانک چھوٹی چھوٹی اسرائیلی برادریوں کے مرکز میں نمودار ہوئے جس سے روزمرہ زندگی کا سکون ختم ہو گیا۔ قتل اور اغوا پر شہری حیران رہ گئے جب کہ دیگر لوگ کئی گھنٹے تک محفوظ کمروں میں رہے یہاں تک کہ اسرائیلی فوجیوں نے انہیں آزادی دلوائی۔ بعض صورتوں میں کئی دن تک شدید لڑائی جاری رہی جس کے بعد اسرائیلی فورسز نے علاقے کا انتظام واپس لے لیا۔

صدمے سے دوچار بہت سے بچ جانے والے افراد نے اپنے پیاروں، پڑوسیوں اور مسلح افراد کی لاشوں کو سڑکوں، باغات اور میدانوں میں بکھرا ہوا پایا۔

اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے 23 لاکھ آبادی والے غزہ کو محاصرے میں لے لیا ہے اور اسرائیل فلسطین تنازعے کی 75 سالہ تاریخ کی سب سے شدید بمباری شروع کر دی ہے جس سے علاقے کے علاقے تباہ ہو گئے ہیں۔

غزہ پر اسرائیل کی جانب سے اب تک کی بدترین بمباری کے بعد سے اب تک کم از کم 2808 فلسطینیوں کی جان جا چکی ہے جب کہ 10850 زخمی ہیں۔

بین الاقوامی مانیٹرنگ گروپ ڈیفنس فار چلڈرن فلسطین کے مطابق ان اعداد و شمار میں ایک ہزار سے زائد بچے شامل ہیں۔ تنطیم کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ ’ہر 15 منٹ میں‘ ایک بچے کی جان جاتی ہے۔

انور ابراہیم نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد غزہ میں اسرائیلی افواج کی بمباری فوری طور پر بند کرنے اور انسانی راہداری کے قیام کا مطالبہ کیا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعے پر بڑھتی ہوئی عالمی تقسیم کے ماحول میں بعض عرب اشاعتی گروپوں نے بھی کہا ہے کہ وہ کتاب میلے میں شرکت نہیں کریں گے۔

متحدہ عرب امارات کی سرکاری شارجہ بک اتھارٹی نے کہا کہ ’ہم لوگوں کے درمیان مکالمے اورافہام و تفہیم کی حوصلہ افزائی کے لیے ثقافت اور کتابوں کے کردار کے حامی ہیں۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘

(اس رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں اداروں سے اضافی مدد لی گئی ہے۔)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا