بلوچستان میں بعض ’الیکٹ ایبلز کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب‘

مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ نواز شریف بلوچستان کے بعد سندھ جائیں گے، دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تجویز دی ہے کہ میاں صاحب پنجاب پر توجہ مرکوز رکھیں۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان کی بڑی سیاسی جماعتوں اور قائدین سے کوئٹہ میں ملاقات کی، جس میں صوبے کی کئی قدآور شخصیات نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ چین پاکستان راہداری (سی پیک) میں بہت بڑی ترجیحات بلوچستان کے اندر موجود ہیں۔

کوئٹہ کے دورے کے دوران بلوچستان کے سیاست دانوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لیے انہوں نے جو خواب دیکھا تھا اس کے پورا ہونے سے پہلے ہی ان کی حکومت ٹوٹ گئی تھی، جس سے بلوچستان کی ترقی کو بہت بڑا دھچکہ لگا۔

’یہاں غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل بروئے کار لانے چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ گوادر سے کوئٹہ تک کا سفر عوام کے لیے آسان بنایا گیا اور دو دن کی مسافت محض آٹھ گھنٹے تک رہ گئی۔ 

سابق وزیراعظم نے کہا کہ گوادر کوئٹہ روڈ کی تعمیر کے دوران 40 سے زیادہ افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جب کہ گوادر سے خضدار اور رتوڈیرو تک ہائی وے بھی بنائی گئی۔

نواز شریف نے مزید کہا کہ سڑک کی تکمیل سے جنوبی بلوچستان کے علاقوں کو سندھ سے ملانے کی راہ ہموار ہوئی۔

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے سیاسی قائدین سے قائد نوازشریف کی ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی ترقی اور عوام کو حقوق کی فراہمی نوازشریف کے دل کے ہمیشہ قریب رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت وزیراعظم 16 ماہ کی حکومت کے دوران انہوں نے سب سے زیادہ مرتبہ بلوچستان کے دورے کئے اور مختصر ترین حکومت کے دوران بھی بلوچستان کی ترقی، تعلیم، نوجوانوں کی ہنرمندی کے منصوبوں پر کام کیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ گوادر بندرگاہ میں ریت صاف نہ ہونے سے بڑے تجارتی جہاز نہیں آسکتے تھے جبکہ انہوں نے اس کی صفائی اور گہرائی کے لیے کنٹریکٹ دیا جس پر کام فروری 2024 میں مکمل ہو جائے گا۔  

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ گوادر ہوائی اڈے پر کام تیز کیا گیا جو رواں سال کے آخر میں مکمل ہو جائے گا، جبکہ گوادر کو پانی کی فراہمی کے لیے شادی کور اور باسول ڈیم بنائے گئے۔

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 21 اکتوبر کو وطن واپسی کے بعد اندرون ملک اپنے پہلے سیاسی دورے کے لیے بلوچستان کا انتخاب کیا ہے اور دیگر اہم پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ منگل کو کوئٹہ پہنچے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف بلوچستان میں پارٹی کو فعال بنانے کے لیے فیصلے کریں گے جبکہ اس دورے کے دوران بلوچستان کے کئی سیاستدانوں کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کے اعلانات متوقع ہیں جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی جانب سے انتخابی اتحاد بھی ممکن ہے۔

سابق وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ نواز شریف دو روزہ دورے کے دوران بلوچستان میں سیاسی قائدین سے اہم ملاقاتوں کے علاوہ پارٹی کے اہم تنظیمی اجلاس کی صدارت بھی کریں گی۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ نوازشریف نے ’سی پیک، ہیلتھ کارڈ، تعلیم ترقی، امن، روزگار، کاروبار اور حقوق دیے تھے، یہ سلسلہ پھر شروع کریں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائی تھی۔ امن پھر واپس لوٹے گا۔‘

نواز شریف کے لیے بلاول بھٹو کا مشورہ

ادھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو سندھ کے علاقے مٹھی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران نواز شریف کے دورہ بلوچستان سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہر کسی کا حق حاصل ہے کہ وہ جس صوبے میں چاہے جا کر سیاست کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلاول نے کہا کہ ’میری تجویز یہ ہو گی کہ وہ لاہور پر ہی توجہ دیں کیوں کہ وہاں مشکلات ہیں ان کو حل کرنے کے لیے کوشش کریں۔‘

اپنی جماعت پر بھروسہ کرو، اس  کے ذریعے سیاست کرو کسی دوسرے ادارے کو نہ کہیں کہ آپ میرے لیے سیاست کریں آپ میرے لیے جگہ بنائی۔ صیحح یہی رہے گا کہ ن لیگ اپنے بل بوتے پر سیاست کرے۔‘

انہوں نے ماضی میں مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی پر اس لیے تنقید کرتی تھی کہ اس نے باپ پارٹی سے ہاتھ ملایا تھا۔ ’امید ہے کہ ن لیگ اپنے موقف پر قائم رہے گی اور اگر کل باپ بری (پارٹی) تھی تو آج بھی ہو گی۔‘

مسلم لیگ ن اس تاثر کو زائل کرنا چاہتی ہے کہ وہ صرف پنجاب کی پارٹی ہے

مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری  نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار محمد اشتیاق کو بتایا کہ ’بلوچستان میں 2017 میں ہماری پارٹی توڑی گئی، حکومت گرائی گئی اور وہاں سے لوگوں کو سائیڈ لائن کیا گیا۔‘

عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’اب تمام لوگ پارٹی میں واپس آنا چاہتے ہیں اور میاں صاحب بھی پارٹی کو یقیناً مضبوط کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس دورے کا مقصد اس تاثر کو زائل کرنا بھی ہے کہ مسلم لیگ ن صرف پنجاب کی پارٹی ہے۔ ’یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ ہر صوبے میں ہم اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کریں۔‘

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ بلوچستان کے بعد نواز شریف سندھ جائیں گے۔ ’پنجاب ہمارا مرکز ہے، یہاں مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی الیکشن مہم چلا سکتے ہیں لیکن بلوچستان، سندھ  اور کے پی کے پر ہماری توجہ ہو گی کیوں کہ یہاں سے وزیراعظم بننے کے لیے سیٹیں چاہیے ہوں گی۔‘

گذشتہ ہفتے بلوچستان کے ایک سینیئر سیاستدان لشکری رئیسانی نے لاہور میں مسلم لیگ ن صدر شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس میں انہیں مسلم لیگ ن میں شمولیت کی دعوت بھی دی گئی۔

اس ملاقات کے بعد ایک بیان میں شہباز شریف نے کہا تھا کہ ان کی جماعت ’بلوچستان سمیت تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔‘

الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں عام انتخابات آئندہ برس آٹھ فروری کو کرانے کے اعلان کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے سیاسی رابطوں میں تیزی آئی ہے۔

گذشتہ ہفتے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما سردار عبدالرحمن کھیتران نے انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ ’میاں نوز شریف دیگر پارٹی قیادت کے ہمراہ کوئٹہ آ رہے ہیں، ان کے ساتھ ملاقات میں بیشتر ایم این اے اور ایم پی ایز ن لیگ میں شامل ہونے کو تیار ہیں، جبکہ باپ پارٹی ن لیگ سے اتحاد کا اعلان بھی کرے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان