ڈیفنس واقعہ: کم عمر ڈرائیورز کی گرفتاری کا حکم

ٹریفک پولیس حکام نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ ڈیفنس واقعے کے بعد اب تک 988 کم عمر یا بغیر لائسنس گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

پولیس حکام نے 17 نومبر، 2023 کو بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز اور بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کے خلاف پچھلے چار دنوں سے جاری کریک ڈاؤن میں 1632 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں(تصویر لاہور ٹریفک پولیس)

لاہور ہائی کورٹ نے جمعے کو شہر میں کم عمر اور بغیر لائسنس گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والوں کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے ڈیفنس میں ایک بظاہر کم عمر نوجوان افنان شفقت کی گاڑی کی ٹکر سے دوسری گاڑی میں سوار ایک ہی گھر کے چھ افراد کی موت پر درج مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

یہ درخواست ملزم افنان کی جانب سے دی گئیم جس میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب، سی سی پی او لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقت اختیار کیا گیا کہ مقدمے میں ’غیر قانونی‘ طور پر دفعہ 302 لگائی گئی اور فریقین قانون و آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور وہ درخواست گزار کا میڈیا ٹرائل کر رہے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ عدالت نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور سی سی پی او سمیت دیگر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

سماعت کے دوران سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے بتایا کہ لاہور میں سڑکوں پر 73 لاکھ گاڑیاں چل رہی ہیں جبکہ لائسنس صرف 13 لاکھ لوگوں کے پاس ہے۔

اس پر عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ بہت بڑا فرق ہے، ٹریفک پولیس اس حوالے سے کیا کر رہی ہے؟

سی ٹی او لاہور نے جواب دیا کہ ’ہم نے اپنے لائسنس سینٹر چھ سے بڑھا کر 30 کر دیے ہیں۔‘

عدالت نے پوچھا کہ ڈیفنس واقعے کے بعد آپ نے کتنے لوگوں کو پکڑا جس پر سی ٹی او نے کہا کہ اب تک وہ 988 لوگوں کو گرفتار کر چکے ہیں جبکہ 90 مقامات پر ہم صرف لوگوں کے لائسنس چیک کر رہے ہیں، تین سینٹرز کو 24 گھنٹے کے لیے فعال کر دیا گیا ہے۔

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست ایسی ہے کہ نمازیں معاف کروانے آئے تھے اور روزے گلے پڑ گئے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر مقدمے میں دفعہ 780 اے لگی ہے تو دو رکنی بینچ اس درخواست کی سماعت کرے گا۔

حادثے میں جان سے جانے والے حسنین کے والد رفاقت علی نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ تھی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ واقعے سے دس پندرہ منٹ پہلے ان کی ملزم سے تکرار ہوئی تھی کیونکہ وہ مبینہ طور پر گاڑی میں سوار ان کی بہو کو ہراساں کر رہا تھا۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور عمران کشور کے مطابق واقعہ غصے کے نتیجے میں پیش آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کم عمر ملزم ڈرائیور نے طیش میں آ کر گاڑی کو ٹکر ماری۔

عمران کے مطابق متاثرہ خاندان ڈیفنس میں مائیوں کی تقریب سے واپس آ رہا تھا، ان کی گاڑی میں خواتین بھی بیٹھی تھیں جبکہ ملزم افنان اپنے دو اور دوستوں کے ساتھ اپنی گاڑی میں تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افنان اور اس کے دوستوں نے گاڑی میں خواتین کو دیکھ کر مبینہ طور پر چھیڑ خانی کی کوشش کی اور ان کی گاڑی کے ارد گرد چکر لگانے شروع کر دیے، افنان کو نہیں معلوم تھا کہ اس خاندان کی دو گاڑیاں اکٹھی ہیں۔ 

عمران نے بتایا کہ متاثرہ خاندان نے دوسری گاڑی افنان کی گاڑی کے آگے لگا کر اسے روکا اور سمجھانے کی کوشش کی جس دوران وہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں بھی ہوئے لیکن چونکہ گاڑی چلانے والے بچے تھے اس لیے متاثرہ خاندان نے انہیں جانے دیا۔ 

’اسی غصے میں افنان نے ایک لمبا چکر کاٹا اوردوسری سڑک سے تیزی سے واپس آیا اور متاثرہ خاندان کی گاڑی کوٹکر مار دی۔‘

عمران کشور کے مطابق ملزم کے ساتھ گاڑی میں سوار دونوں دوست ابھی مقدمے میں نامزد نہیں ہوئے۔

ملزم افنان کے وکیل عرفان حیات باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’بڑی صاف بات ہے کہ ایف آئی آر میں حادثے کے پانچ دن بعد رفاقت علی نے موقف اپنایا کہ افنان نے گاڑی جان بوجھ کر ماری اور ان کا جھگڑا ہوا تھا وہ گاڑی میں بیٹھی خواتین کو چھیڑ رہا تھا۔

’جس دن یہ وقوعہ ہوا اس روز رات کے نو بجے یہ ایک حادثہ تھا اور حادثاتی طور پر چوک کے اندر یہ وقوعہ پیش آ گیا جس میں یہ دونوں ایک دوسرے سے اجنبی تھے۔

وکیل عرفان کے مطابق: ’جس طرح یہ چھیڑ چھاڑ کی بات کرتے ہیں، دن کا وقت ہو تو کوئی اور بات ہو سکتی ہے رات کے وقت تو گاڑی میں بیٹھا بندہ دکھائی ہی نہیں دیتا، اس لیے ایسی کوئی بات نہیں تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے دعویٰ کیا کہ افنان اپنے دوستوں کے ساتھ تھا چوک میں پہنچا تو گاڑی کی ٹکر ہو گئی اور یہی وقوعہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیفنس کا یہ علاقہ ابھی بنا ہے اور وہاں ابھی سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگے نہ ہی اس ارد گرد قریب کوئی گھر ہیں جہاں سے کوئی ویڈیو مل سکے۔

انہوں نےدعویٰ کیا کہ افنان کی عمر اس کے ب فارم پر درج تاریخ پیدائش کے مطابق 17 سال ہے اور وہ بارہویں جماعت کا طالب علم ہے۔

رفاقت علی نے واقعے کی ایف آئی آر تھانہ ڈیفنس سی میں درج کروا دی تھی جس میں بعد میں دفعہ 302 اور دہشت گردی کی دفعہ 780 اے شامل کی گئی۔

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے صوبے بھر میں کم عمر ڈرائیورز کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔

اس سے قبل رواں برس مئی میں لاہور سٹی ٹریفک پولیس نے کم عمر ڈرائیورز کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی جس میں 18 سال سے کم عمر بچوں کو گاڑی، موٹر سائیکل یا رکشہ چلاتا دیکھ کر سواری کو تھانے میں بند کرنے اور بچے کے والدین کے تھانے آ کر بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایات دی گئی تھیں۔

اس واقعے کے بعد سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے حکم دیا کہ کم عمر ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ سواری کے مالکان کے خلاف مقدمے درج کرنے کا بھی حکم دیا۔

انہوں نے بتایا کہ چار دنوں سے جاری کریک ڈاؤن میں 1632 مقدمات درج کیے جاچکے ہیں جبکہ سینکڑوں گاڑیاں تھانوں میں بند ہیں۔

لاہور کے ایک پوش علاقے میں قائم نجی سکول کی پرنسپل نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ بہت سے دیگر سکولوں اور یہاں تک کہ کالجز میں بھی 18 سال سے کم عمر کے بچے موٹر سائیکل پر آتے جاتے ہیں۔

’ہم نے کئی بار والدین سے کہا کہ وہ ان کا کوئی اور انتظام کریں لیکن والدین کا کہنا ہوتا ہے کہ سکول گھر سے قریب ہے اور یا پھر یہ کہ کوئی اور انتظام نہیں ہوسکتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان