پسند کی شادی کرنے والوں کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ نے ایک نیا فیصلہ سنایا ہے جس کے مطابق اب پسند کی شادی کرنے والے اپنے صوبے کے کسی بھی ضلع میں اپنا بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت قلمبند کرواسکیں گے۔

پسند کی شادی کرنے والے اب کسی بھی مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے سکیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ایک نیا فیصلہ سنایا ہے جس کے مطابق اب پسند کی شادی کرنے والے اپنے صوبے کے کسی بھی ضلع میں اپنا بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت قلمبند کرواسکیں گے(تصویر: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ)

لاہور ہائی کورٹ نے ایک نیا فیصلہ سنایا ہے جس کے مطابق اب پسند کی شادی کرنے والے اپنے صوبے کے کسی بھی ضلع میں اپنا بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت قلمبند کرواسکیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ  نے  پیر کو مجسٹریٹ کو حکم دیا ہے کہ ’کوئی بھی بالغ لڑکا لڑکی جن کا تعلق کسی بھی ضلع سے ہو، وہ دفعہ 164 کے تحت اپنا بیان کسی بھی ضلع کے مجسٹریٹ کے سامنے قلم بند کروانا چاہیں تو اس علاقے کا مجسٹریٹ انہیں انکار نہیں کرے گا۔‘

 ہائی کورٹ ملتان بینچ کےفیصلے کے بعد مجسٹریٹ نے دو پسند کی شادی کرنے والوں کا دفعہ 164 کے تحت بیان قلمبند کرلیا۔

ہائی کورٹ ملتان بینچ نے یہ فیصلہ پسند کی شادی کرنیوالی لڑکی کے والد کی طرف سے درج اغوا کے مقدمے کی سماعت کے دوران دیا۔

سماعت کے دوران لڑکی نے  لڑکے کےحق میں بیان  دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے گئی اور اپنی مرضی کی شادی کی اور وہ اپنے شوہرکے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ 

سیکشن 164 کے تحت بیان ہے کیا؟

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ رانا انتظار نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا: ’164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا جاتا ہے۔ کسی کے خلاف اگر کوئی ایف آئی آر ہو جاتی ہے اور وہ اس کے حوالے سے وہ شخص اپنا کوئی بیان ریکارڈ کروانا چاہتا ہے تو اس کا بیان سیکشن 164 کے تحت لیا جاتا ہے۔ پولیس کےسامنے دیے گئے بیان کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی لیکن مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان کی اہمیت ہوتی ہے۔ محبت کی شادیوں میں لڑکا لڑکی بھاگ کر شادی کر لیتے ہیں بعد میں لڑکی کے گھر والے لڑکے پر اغوا کی ایف آئی آر درج کروا دیتے ہیں۔ اس ایف آئی آر کو خارج  کرنے کے لیے لڑکا اور لڑکی مجسٹریٹ کی عدالت میں بیان دیتے ہیں اور اس بیان کی روشنی میں پولیس ان کے خلاف مقدمے کو خارج کر دیتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے ہوتا یہ تھا کہ 164 کا بیان جس تھانے میں ایف آئی آر درج ہوتی تھی اس سے متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس ریکارڈ کروایا جاتا تھا۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ جب مجسٹریٹ پولیس والوں سے اپنا ریکارڈ لانے کا کہتے تھے تو پولیس والے دوسرے فریق(جنہوں نے ایف آئی آر کروائی ہوتی ہے)  کو بھی اطلاع دے دیتے تھےجس کی وجہ سے مجسٹریٹ کی عدالت میں مختلف قسم کی لڑائیاں اور مشکلات پیدا ہوجاتی تھیں۔‘

رانا انتظار نے بتایا یہ تک دیکھنے میں آیا کہ ایک پارٹی دوسرے کے بندے تک اٹھا کر لے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا: ’اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کسی بھی ضلع میں کسی بھی مجسٹریٹ کے سامنے اپنا 164 کا بیان ریکارڈ کروا سکیں گے۔ اس سے یقینا ًوہ لڑائی جھگڑے جو آئے دن میڈیا کی زینت بنتے ہیں ان میں کمی آئے گی اورجن کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر کروائی جاتی ہے ان کے لیے آسانی پیدا ہوگی، کیونکہ ہر بالغ مرد و عورت کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق مذہب بھی دیتا ہے اور قانون بھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بطور قانون دان تو ان کے خیال میں اس میں کوئی نقصان نہیں لیکن دوسری جانب یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں جو گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کا سلسلہ ہے اس میں  مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

’لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر انسان کا قانونی حق ہے اور اس حق کو استعمال کرنے کے لیے آسانی پیدا کی جائے تو یہ اچھی بات ہے اور ہم اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر کسی نے بھی عدالت سے رجوع کرنا ہے تو وہ بلا خوف و خطر رابطہ کرے اور اپنا بیان دے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایڈووکیٹ رانا انتظار کہتے ہیں کہ پہلے بھی یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ آپ نے 164 کا بیان آپ نے متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس ہی دینا ہے۔

ان کے مطابق: ’پہلے یہ ہو جاتا تھا کہ آپ بیان کہیں بھی دے سکتے ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل انتظامی طور پر اس پرپابندی لگا دی گئی۔ اب اسی پابندی کو عدالت نے دراصل ختم کیا ہے۔ ‘

’بچوں کو سمجھنے کی کوشش کریں‘

عورت فاؤنڈیشن کی  ڈائریکٹر پروگرام ممتاز مغل نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس والدین آتے ہیں اور وہ ان سے یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم کیس فائل کریں کہ ان کی بچی کو لڑکا دھوکے سے لے گیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہم ان کو سمجھا دیتے ہیں یا کسی  وکیل کا بتا دیتے ہیں  لیکن آگے بچی خود یہ بیان دے دیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عورت فاؤنڈیشن پاکستان کے پانچ مختلف اضلاع میں کام کر رہی ہے۔ اور ہر ضلع سے مہینے میں دو سے تین کیس ایسے آتے ہیں جن میں والدین ہم سے مدد مانگتے ہیں کہ ان کی بیٹی گھر چھو ڑ کرچلی  گئی ہے بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ بچی شادی کرچکی ہے اور بعض اوقات انہیں بھی یہ معلوم ہوتا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ فاؤنڈیشن کے پاس رضا کار وکیلوں کا نیٹ ورک بھی ہے اور ہمارے اپنے وکلا بھی ہیں، لیکن ہم والدین کو یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ وہ بچوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

’تشدد کے واقعات‘

ممتاز مغل نے کہا: ’ہمارے ہاں مسئلہ ہی یہ ہے کہ والدین بچوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور بعد میں پریشان ہو کر یہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم انہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ پسند کی شادی کا حق ہر بالغ مرد و عورت کو ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا:’بعض اوقات والدین بھی ٹھیک ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کی پسند غلط بھی ہو سکتی ہے اور ہم نے یہ زیادہ دیکھا ہے۔

’کیونکہ پسند کی شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہمارے پاس بھی شکایات آنی شروع ہو جاتی ہیں۔  جیسے لڑکیاں خُلع کے لیے رابطہ کرتی ہیں یا شکایات  لے کر آتی ہیں شوہر کچھ کرتا نہیں، کماتا نہیں یا تشدد کے واقعات تسلسل سے شروع ہو جاتے ہیں۔‘ 

رواں برس پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں  پسند کی شادی کے بعد ایک باپ نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر اپنی بیٹی کے گھر کو آگ لگا دی تھی جس میں اس کی بیٹی، اور اس کے بچوں سمیت سات افراد جھلس کر مر گئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان