ٹی وی کا عالمی دن: جب بھٹو نے ٹی وی ریکارڈنگ کی نزاکت بھانپ لی

پاکستان ٹیلی ویژن پی ٹی وی کے سابق چینل ہیڈ سرور منیر راؤ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹینٹ، شامیانوں اور کھلے لان میں شروع ہونے والا ٹیلی ویژن آج ایک سلطنت بن چکا ہے۔‘

اقوام متحدہ نے 21 نومبر 1996 کو پہلے ورلڈ ٹیلی ویژن فورم کی مناسبت سے 21 نومبر کی تاریخ کو ’ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ٹی وی نشریات شروع ہونے کی فہرست میں پاکستان دنیا بھر کے ممالک میں 92 نمبر پر تھا جب کہ مسلم ممالک میں پاکستان 20ویں نمبر پر تھا۔

پاکستان میں سرکاری ٹیلی ویژن کی شروعات 26 نومبر 1964 میں لاہور ٹی وی سٹیشن سے ہوئی۔

اکتوبر 1964 میں تجرباتی بنیادوں پر جاپان کی فرم کے تعاون سے پاکستان کے دو شہروں لاہور اور ڈھاکہ میں سٹیشن کھولنے کا فیصلہ کیا گیا اور 26 نومبر 1964 کو لاہور اور 25 دسمبر 1964 کو ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن سٹیشن کھولے گئے جہاں سے روزانہ تین تین گھنٹے کی نشریات نشر کی جاتی تھی۔

سرور منیر راؤ پاکستان ٹیلی ویژن  پی ٹی وی کے چینل ہیڈ رہ چکے ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’ٹینٹ، شامیانوں اور کھلے لان میں شروع ہونے والا ٹیلی ویژن آج ایک سلطنت بن چکا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی وی کے ابتدائی دور میں اس کا واحد مقصد صوبوں کو آپس میں جوڑنا تھا۔ موجودہ دور میں علاقائی اور قومی زبانوں میں ٹی وی چینلز کی بھرمار ہو چکی ہے اور یہ سب 2003 کے بعد سے شروع ہوا جب جنرل مشرف کی حکومت کی طرف سے اخبارات کو ٹی وی چینلز کے لائسنس ملے۔‘

سرور منیر راؤ کے مطابق ’1930 کی دہائی دنیا میں ٹیلی ویژن نشریات کے آغاز کی دہائی ہے۔ 1940 کی میں ٹیلی ویژن توانا ہوا اور تیسری دہائی ٹیلی ویژن کی بلوغت کی ہے جو 1960 کے بعد کی دہائی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آج جو لوگ پی ٹی وی میں کام کر رہے ہیں ان کو یہ تصور بھی نہیں ہو گا کہ ٹیلی ویژن کیسے انتہائی بنیادی آلات سے شروع کیا گیا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن اگرچہ سرکاری ٹیلی ویژن ہے لیکن سب سے زیادہ آزاد ہے۔ پاکستان کے نجی چینل جتنے کھلے پروگرام کرتے ہیں، دنیا میں اتنی کھلی تنقید کہیں ہوتی نظر نہیں آئی گی۔‘

ماضی کی ایک یاد تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت جو آلات ہم استعمال کرتے تھا ان کا حال یہ تھا کہ ایک دفعہ بھٹو صاحب پشین میں تقریر کر رہے تھے تو ہم نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس جو ساؤنڈ فلم ہے وہ دس منٹ سے زیادہ کی نہیں ہو گی۔

’دس منٹ سے 20 سیکنڈ پہلے ہم آپ کو اشارہ دیں گے تو آپ نے  اپنی گفتگو دس سیکنڈ میں ختم کر لینی ہے تاکہ ہم ساؤنڈ فلم اور کیمرہ فلم تبدیل کر لیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تو جب بھٹو صاحب تقریر کر رہے تھے تو وہ وہاں کے سرداری نظام، سیاسی نظام، اپنی پارٹی کے منشور اور پاکستان کے مستقبل پر بڑی سنجیدہ گفتگو جاری تھی، میں نے انہیں وائنڈ اپ کا اشارہ دیا، بھٹو صاحب سمجھ گئے اور اس عرصے میں انہوں نے کہا ہاں یہ باتیں تو ہو رہی ہے لیکن میں آپ کو اپنے بچپن کی بھی ایک بات بتاتا ہوں کہ میں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیسے کیا۔

’وہ لائیٹر گفتگو پر آئے، کیمرہ مین نے سپول اتارا،  ایک سپول سے فلم دوسرے پر ڈالی، نئی فلم بھی اسی بیگ میں پڑی تھی اس کا سپول اٹھا کر اس نے لاک کیا، زپ سے کھول کر دوبارہ کیمرے کے اوپر لگایا اور ہم نے بھٹو صاحب کو اشارہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں تو آپ نے یہ سب تو سن لیا لیکن اصل پاکستان کا مستقبل ان چیزوں میں ہے اور وہ واپس سنجیدہ گفتگو پر آ گئے۔‘

اپنی پروفیشنل لائف کے دوران ہونے والی غلطیوں میں سے ایک کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ایک دفعہ جنرل مشرف کے طیارے میں ان کا انٹرویو کرنے کے بعد جب کلوز ریمارکس دینے تھے تو میں نے غلطی سے ’یہ تھے جنرل مشرف‘ کی بجائے ’جنرل ضیاالحق‘ کہہ دیا، جنرل مشرف ہنس پڑے اور میرے کندھے تھپک کر بولے، کوئی بات نہیں راؤ صاحب، دس سال ضیاالحق کہتے رہے ہیں، عادت آرام سے جائے گی۔‘

راؤ صاحب کے مطابق موجودہ دور میں ہزاروں چینل دنیا بھر میں ہیں اور پاکستان میں بھی بیسیوں ٹی وی چینلز ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں لیکن موبائل آنے کے بعد اب آنے والا وقتوں میں دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح ٹی وی نے دنیا بدل کر رکھ دی تھی کیا اب ٹیلی ویژن اپنی بقا کی جنگ میں کامیاب ہو بھی پائے گا یا نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ