فلسطینی نژاد طلبا پر فائرنگ کرنے والے ملزم کا اعتراف

امریکی ریاست ورمونٹ کے شہر برلنگٹن میں کالج کے تین فلسطینی نژاد طالب علموں کو گولی مار کر زخمی کرنے والے ملزم نے پیر کو اقدام قتل کے الزامات کا اعتراف کر لیا۔

تین فلسطینی طالب علم جنہیں امریکی ریاست ورمونٹ میں گولیاں مار کر زخمی کیا گیا (روئٹرز)

امریکہ کی ریاست ورمونٹ کے شہر برلنگٹن میں کالج کے تین فلسطینی نژاد طالب علموں کو گولی مار کر زخمی کرنے والے ملزم نے پیر کو اقدام قتل کے الزامات کا اعتراف کر لیا اور ایک جج نے اسے حراست میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق 48 سالہ جیسن جے ایٹن کو برلنگٹن کی چٹنڈن کاؤنٹی کرمنل کورٹ میں ویڈیو فیڈ کے ذریعے پیش کیا گیا۔ حملے کے ایک دن بعد اتوار کو گرفتار کرکے انہیں اس جیل منتقل کیا گیا تھا۔ 

پولیس نے کہا ہے کہ تفتیش کار ہفتے کی شام ورمونٹ کے سب سے بڑے شہر کے وسط میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے کو نفرت پر مبنی ایک مشتبہ جرم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق فائرنگ کا نشانہ بننے والے تین افراد میں سے دو نے سیاہ و سفید فلسطینی کیفیہ رومال پہنے ہوئے تھے اور ایک کا کہنا تھا کہ جب مسلح شخص سے ان کا سامنا ہوا اس وقت وہ انگریزی اور عربی زبان میں بات کر رہے تھے۔

حکام نے بتایا کہ عدالتی دستاویزات میں جن تین دوستوں کی شناخت ہشام آوارتانی، تحسین علی احمد اور کنان عبدالحمید کے طور پر کی گئی ہے، جن کی عمریں 20 سال ہیں، وہ پیر کو بھی زیر علاج تھے جنہیں بالترتیب ریڑھ کی ہڈی، سینے اور کولہوں میں گولیاں لگی ہیں۔

پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامہ کے مطابق متاثرین نے پولیس کو بتایا کہ انہیں یونیورسٹی آف ورمونٹ کے قریب اس وقت گولی ماری گئی جب وہ آوارتانی کی دادی کے گھر سے ایک بلاک کے فاصلے پر دوپہر کے وقت چہل قدمی کر رہے تھے۔

تینوں لوگ دوسرے شہروں کے کالجوں میں انڈر گریجویٹ طالب علم ہیں لیکن تھینکس گیونگ کی تعطیلات کے موقع پر برلنگٹن میں آوارتانی اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے تھے۔

پولیس کے مطابق ایسٹن اپنے اپارٹمنٹ کے باہر تین افراد کے پاس پہنچا، اپنی پستول نکالا، چند قدم دور سے فائرنگ کی اور پھر موقع سے غائب ہو گیا۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس نے مجموعی طور پر چار گولیاں چلائیں۔

’میں آپ کا انتظار کر رہا تھا‘
فائرنگ کے واقعے کے بعد ایف بی آئی اور امریکی بیورو آف الکوحل، تمباکو، آتشیں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد (اے ٹی ایف) سمیت مقامی، ریاستی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تلاش شروع کی گئی۔

پولیس کے حلف نامہ کے مطابق ایٹن کو اگلے دن اس وقت حراست میں لیا گیا جب اے ٹی ایف ایجنٹ نے محلے کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے دروازے پر دستک دی اور مشتبہ شخص نے ان کا استقبال کیا، جس نے آگے بڑھاتے ہوئے افسر سے کہا، ’میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔‘

پولیس نے بتایا کہ بعد میں اپارٹمنٹ کی تلاشی کے دوران ایک ہینڈ گن، جائے واردات سے ملنے والے گولہ بارود، 22 کیلیبر رائفل اور دو شاٹ گن برآمد ہوئیں۔

ان پر قتل کی کوشش کے تین الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں جرم ثابت ہونے پر 20 سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

چٹنڈن کاؤنٹی کی ریاستی وکیل سارہ فیئر جارج نے پیر کو ایک بریفنگ کے دوران کہا، ’اگرچہ ہمارے پاس ابھی تک نفرت انگیز جرائم کی حمایت میں ثبوت نہیں ہیں، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک نفرت انگیز اقدام تھا۔‘

فائرنگ کا یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب امریکہ بھر میں اسلام مخالف، عرب اور یہود مخالف واقعات اور دھمکیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برلنگٹن پولیس کے سربراہ جون مراد نے اتوار کو ایک بیان میں کہا، ’اس مشکل وقت میں، کوئی بھی اس واقعے کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی یہ شبہ کر سکتا ہے کہ یہ نفرت پر مبنی جرم ہو سکتا ہے۔‘

نارنجی رنگ کا جمپ سوٹ پہنے ایٹن سے جب جج نے پوچھا کہ کیا وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو سمجھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا ’ہاں سر‘۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس مشتبہ شخص نے فائرنگ میں استعمال ہونے والی بندوق چند ماہ قبل قانونی طور پر حاصل کی تھی۔

امریکی اٹارنی جنرل میریک گارلینڈ نے پیر کو کہا کہ امریکی محکمہ انصاف تحقیقات میں مقامی حکام کی مدد کر رہا ہے۔

نیو یارک کے دفتر میں ایک علیحدہ اجلاس سے قبل گارلینڈ نے کہا، ’اس ملک میں کسی بھی شخص یا کسی بھی کمیونٹی کو مہلک تشدد کے خوف میں نہیں جینا چاہیے۔‘

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن فائرنگ کے اس واقعے سے خوفزدہ ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر نے ایک نیوز بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ میں تشدد یا نفرت کے لیے ہرگز کوئی جگہ نہیں ہے۔

متاثرہ خاندانوں کے مطابق آوارتانی روڈ آئی لینڈ کی براؤن یونیورسٹی میں طالب علم ہیں، عبدالحمید پنسلوانیا کے ہیورفورڈ کالج میں زیر تعلیم ہیں اور علی احمد کنیکٹیکٹ کے ٹرینٹی کالج میں پڑھتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تینوں فلسطینی نژاد ہیں جن میں سے دو امریکی شہری اور تیسرا قانونی طور پر امریکی رہائشی ہے۔

ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے ایک نجی کوئکر سیکنڈری سکول رام اللہ فرینڈز سکول کے گریجویٹ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ