ابھی تو صرف ناراض ہیں!

لندن میں گذشتہ دنوں کشمیر ریلی میں شرکت کے لیے نوٹنگھم سے آنے والوں کی کہانی۔

کشمیر پر 2014 میں لندن میں ہونے والا ایک احتجاج۔ (اے ایف پی)

مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے کارکن آپس میں ملیں اور سیاست پر بات نہ کریں یہ ممکن نہیں۔ انہیں گفتگو کے لیے کسی فورم کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر بحث سنجیدہ نوعیت کی ہو تو سننے اور دیکھنے والوں کو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔

یہ مباحثے اس وقت دلچسپ ہو جاتے ہیں جب چند پختہ اور کچھ نیم پختہ سیاسی کارکن آپس میں سیاسی گتھی سلجھانے میں مصروف ہوں۔ اسی نوعیت کا ایک  مباحثہ ہمیں شمالی انگلستان کے شہر نوٹنگھم سے جانے والی اس بس میں دیکھنے کو ملا جو لندن کی طرف رواں دواں تھی۔ اس بس میں پچاس کے قریب لوگ تھے جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تھا اور سیاسی طور پر مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔

ان سب کو لندن میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے ہونے والی کشمیر آزادی ریلی میں شریک ہونا تھا۔ بس چل پڑی۔ سیاسی کارکن پر جوش تھے۔ نعرے بازی جاری تھی۔ بس میں سیاسی تقاریر  بھی ہوتی رہیں، کچھ لوگوں نے مودی کو چلینج کیا اور یہ پیغام دیا کہ ان کا یہ ظلم زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ بعض نے کشمیر کی تاریخ پر بات کی۔ بیچ بیچ میں ترانے بھی بجتے رہے، زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے بھی لگتے رہے لیکن ہمیں جس نعرے کا انتظار تھا وہ کسی نے نہیں لگایا یعنی کشمیر بنے گا پاکستان!

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جوں جوں سفر آگے بڑھتا گیا سیاسی کارکنان کے بحث اور مباحثوں میں بھی شدت آتی گئی۔ بس کے درمیان موجود کارکن کشمیر کاز کے ساتھ مخلص اور اس کو نقصان پہنچانے والوں پر بات کر رہے تھے۔ اس بس میں آزادی کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ایک طرف ہندوستان کی حکومت کے ’مظالم‘ زیر بحث تھے تو دوسری طرف پاکستان کی ریاست پر یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ اس نے مسئلہ کشمیر کو صحیح طور پر اجاگر نہیں کیا۔ کچھ نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ حکومت پاکستان کشمیریوں کے ساتھ مخلص نہیں اور اس نے انہیں ہر موقع پر مایوس کیا ہے۔ اگر چند منتظمین کی جانب سے  جو نعرے لگائے گئے وہ آزادی سے متعلق تھے جس کا سب نے بیک زبان جواب دیا۔

بحث کشمیر سے متعلق پاکستان کی سیاست پر ہوتی رہی۔ غصہ، ناراضگی اور جذبات دیکھنے کو ملے۔ یہ مباحثہ اس وقت ختم ہوا جب گاڑی لندن پہنچ گئی۔ بس میں لوگ جس غصے کا اظہار کر رہے تھے یہی سوال ہم نے لندن میں بہت بعض مظاہرین کے سامنے رکھا لیکن جواب مختلف نہیں تھا۔ بھارت سے دشمنی اور پاکستان سے ناراضگی عیان تھی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے سیاسی قائدین بشمول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حید ر کو خطاب کرنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی کسی اور پاکستانی سیاسی رہنما کو بولنے کا موقع دیا گیا۔ اس  بڑے مظاہرے میں اکا دکا پاکستانی پرچم نظر آئے اور یہاں بھی وہ نعرہ سننے کو نہیں ملا جو پاکستانی میڈیا میں گونجتا رہتا ہے۔

اپنی پوری فیملی کے ساتھ مظاہرے میں شریک 70 سالہ شخص نے بتایا کہ بھارت نے پاکستان کی شہ رگ کاٹ دی ہے اور پاکستان کچھ نہیں کر سکا۔ ’ہم ناراضگی کا اظہار بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ ابھی تو صرف ناراض ہیں!۔۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ