عسکریت پسندی میں اضافہ، انتخابی عمل پٹڑی سے اتر سکتا ہے

رواں سال کے پہلے نو ماہ کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں 386 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 1100 سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس عرصے میں 2022 کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 19 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

پاکستانی سکیورٹی اہلکار ایک خود کش بم حملے کے مقام کا معائنہ کر رہے ہیں جو 12 مئی 2017 کو کوئٹہ میں ہوا تھا (اے ایف پی)

رواں سال عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنے والی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے بدترین برسوں میں سے ایک رہا ہے۔ حملے تقریباً روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔

رواں سال کے پہلے نو ماہ کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں 386 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 1100 سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس عرصے میں 2022 کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 19 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے والے اموات گذشتہ آٹھ سال میں سب سے زیادہ ہیں۔

تقریباً آٹھ ہفتے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل یہ واقعی ایک سنگین صورت حال ہے۔ انتخابات آٹھ فروری 2024 کو ہوں گے۔ خاص طور پر شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خودکش بم دھماکوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

وفاقی نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دونوں صوبوں میں انتخابی ریلیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ہونے والی مجموعی اموات میں سے 92 فیصد انہی دو صوبوں میں ہوئیں۔

اگرچہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مبینہ طور پر زیادہ تر حملوں میں ملوث رہی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات داعش خراسان گروپ کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور سرگرمیاں ہیں۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے متعدد حالیہ حملوں کے تانے بانے اسی سے ملتے ہیں جس سے پاکستان کو درپیش سکیورٹی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ سکیورٹی تنصیبات پر حالیہ حملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ سخت سکیورٹی والے مقامات پر بڑی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔

عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے گذشتہ ماہ وسطی پاکستان کے علاقے میانوالی میں فضائیہ کے تربیتی اڈے کو نشانہ بنایا۔ سرکاری بیان کے مطابق حملے میں تین طیاروں اور ایک آئل ٹینکر کو نقصان پہنچا۔ سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ٹی ٹی پی کے نوعسکریت پسند مارے گئے۔ سخت حفاظتی انتظامات والے مقام پر حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس گروپ نے اپنی کارروائیاں پنجاب تک بڑھا دی ہیں۔

عبوری طالبان انتظامیہ کی جانب سے اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کے بعد پاکستان کے لیے سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ سابق قبائلی علاقوں میں سرحد پار سے حملے نمایاں طور پر بڑھے ہیں لیکن اس سال عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، جن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ عسکریت پسندوں نے عملی طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے کچھ حملوں میں افغان طالبان بھی ٹی ٹی پی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ قبل ازیں رواں سال بلوچستان کے ضلع ژوب میں سکیورٹی فورس چوکی پر حملے میں ان کے ملوث ہونے کے مبینہ ثبوت ملے ہیں۔ یہ حالیہ برسوں میں ہونے والے جاں لیوا ترین حملوں میں سے ایک تھا۔

اس حملے کے اور دیگر الزامات کی وجہ سے اسلام آباد نے غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے چار لاکھ سے زیادہ افغان ملک چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی 10 لاکھ غیر قانونی پناہ گزین باقی ہیں۔

 اگرچہ اس طرح کے یک طرفہ اقدامات سے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس سے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں والے تشدد قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ درحقیقت ملک میں عسکریت پسندی میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

یہ رواں سال کے خونریز ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ ایک ایسا سال جس میں پہلے ہی گذشتہ آٹھ سال میں سکیورٹی فورسز میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ مانا جاتا ہے کہ اس حملے میں داعش خراسان ملوث تھی اور اس طرح کے تشدد کے لیے جانی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس گروپ نے اس سال جولائی میں افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی  سیاسی ریلی میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کی بھی ذمہ داری قبول کی جس میں کم از کم 54 افراد جان سے گئے۔ یہ سابق قبائلی علاقہ طویل عرصے سے ٹی ٹی پی اور داعش سمیت عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ ہے۔

ٹی ٹی پی کے کچھ دھڑوں اور داعش خراسان کے درمیان ابھرتے ہوئے گٹھ جوڑ سمیت کچھ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں اور داعش خراسان کے درمیان بھی سٹریٹیجک اتحاد کی اطلاعات ہیں۔ مختلف عسکریت پسند گروہوں کا اتحاد سکیورٹی اداروں کے لیے صورت حال کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیتا ہے۔

اب یہ صورت حال ہماری انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر سوالات اٹھا رہی جو ہر قسم کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں جاری رہنے اور بڑھنے کی وجہ سے مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ تشدد کی تازہ لہر عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے میں پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کی نااہلی کو ظاہر کرتی ہے۔

جیسے جیسے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال بڑھتی جا رہی ہے اور معیشت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ عسکریت پسند اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں جو انتشار کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

عسکریت پسندی کی تازہ ترین لہر نے ایک بار پھر مربوط پالیسی کے فقدان کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی مؤثر اور پائیدار حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے جو ملک کی سلامتی اور انتخابی عمل کے لیے خطرہ بننے والے عسکریت پسند عناصر کا خاتمہ کر سکے۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں اور یہ اس سے قبل عرب نیوز میں شائع ہو چکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ