خیبرپختونخوا میں اس سال 314 اہلکاروں کی حملوں میں موت

خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال صوبے کے مختلف اضلاع میں عسکریت پسندوں نے 1 ہزار سے زائد حملے کیے جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 314 اہلکار جان سے گئے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 دسمبر، 2023 کو عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سکیورٹی اہلکار جائے وقوعہ کا جائزہ لیتے ہوئے (اے پی)

پاکستان کی سکیورٹی فورسز لگ بھگ دو دہائیوں سے عسکریت پسندوں کے خلاف نبردآزما ہیں اور سال 2023 بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے لیے مہلک ثابت ہوا۔  

عسکریت پسندوں کی ان کارروائیوں کا زیادہ تر محور پاکستان کا شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخوا رہا۔

منگل کو بھی عسکریت پسندوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں  سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر خودکار اسلحے اور بارود سے بھری گاڑی سے حملہ کیا جس میں 23 فوجی جان گئے۔ 

اس حملے سے قبل رواں سال ڈیرہ اسماعیل خان میں 98 حملے کیے جا چکے ہیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 21 اہلکار جان سے گئے البتہ منگل کو کیا گیا حملہ فوج پر مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے رواں ماہ جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اس سال صوبے میں عسکریت پسندوں نے ایک ہزار 50 حملے کیے جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے  314 اہلکار جان سے گئے جبکہ 858 زخمی ہوئے۔    

صوبائی دارالحکومت پشاور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے لیے سب سے مہلک ثابت ہوا جہاں اس برس 106 اہلکار جان سے گئے جبکہ 248 زخمی ہوئے۔  

سب سے بڑا جانی نقصان سال کے آغاز میں ہی ہوا جب 30 جنوری 2023 کو خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس لائنز کے اندر مسجد میں ایک ایسے وقت دھماکا کیا گیا جب وہاں درجنوں افراد موجود تھے۔ اس بم دھماکے میں 80 سے زائد اموات ہوئیں۔  

خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں کے سب سے زیادہ حملے شمالی وزیرستان میں ہوئے جن کی تعداد 201 رہی۔ ان حملوں میں 36 اہلکار جان سے گئے جب کہ 134 زخمی ہوئے۔  

ضلع خیبر میں اس سال 169، باجوڑ میں 62، ٹانک میں بھی 61 حملے کیے گئے۔ لکی مروت میں 55،  کرم میں 52، بنوں میں 46، کوہاٹ میں 20، اورکزئی میں 14، مہمند میں 12، چارسدہ میں 11 اور چترال اور مردان میں 10، 10 حملے ریکارڈ کیے گئے۔ 

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ’دہشت گردوں‘ کے حملے میں مارے جانے والوں کے لواحقین سے پیر کو ملاقات میں کہا تھا کہ ریاست کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شرعی اور آئینی حق حاصل ہے اور ریاست عوام کو ہر صورت تحفظ فراہم کرے گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے اور زبان، رنگ، نسل، عقیدے سمیت کسی بھی بنیاد پر کسی بھی گروہ یا فرد کو پرتشدد کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر کوئی گروہ تائب ہو کر رجوع کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ ’شہدا‘ کے لواحقین سے معافی مانگ اگر وہ مکمل طور پر اپنی غلطی قبول اور غیر مشروط سرنڈر کرے تو ریاست فیصلہ کر سکتی ہے ’اگر ایسا نہیں تو ہم سو سال تک بھی لڑنے کیلئے تیار ہیں اور ریاست   ایسے لوگوں سے  بات چیت نہیں کرے گی۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان