پاکستان لہولہان ہے اور مہلک حملوں کی مسلسل لہروں نے ایک بار پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
مستونگ میں 29 ستمبر کو ہونے والے وحشیانہ خودکش دھماکے میں 52 قیمتی جانوں کے ضیاع جبکہ ہنگو میں دھماکوں سے ہلاک ہونے والے چار بے گناہ افراد کا سوگ منایا جا رہا ہے۔
یہ ہولناک واقعات مقدس ایام میں پیش آئے جب سکیورٹی ناقابل تسخیر ہونی چاہیے تھی۔
پاکستانیوں کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ وہ کب تک بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات کا سوگ مناتے رہیں گے۔
دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پاکستان کو کمپرومائزڈ سکیورٹی سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔
زیادہ تر غیر ملکی مسافر وہاں جانے کی ہمت نہیں کرتے اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہر روز کسی نامعلوم دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔
ہماری حکمت عملی کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے اور اس کے باوجود ہمیں ’آہنی ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرنے کے اپنے عزم‘ پر فخر ہے۔
عسکریت پسندوں کے تعاقب میں ہمیشہ مصروف رہنے کے باوجود پاکستان میں ابھی تک کسی کو بھی قانونی کارروائی کے ذریعے پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا۔
مبینہ مقابلوں کے ذریعے ہلاکتیں ہوتی ہیں اور ان کی شناخت مخفی رہتی ہے۔ ڈرون حملوں میں صرف ٹی پی پی کے چند رہنما مارے گئے ہیں۔
ریاست کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور یہ ہمیشہ مشکل رہے گی۔
سادہ حقیقت یہ ہے کہ ایک موت مزید 10 کو جنم دیتی ہے اور مختلف ایجنسیوں کے درمیان مکمل عدم اتفاق ہوتے ہوئے، کسی کو بھی اس بارے میں واضح اندازہ نہیں ہے کہ کون فیصلہ کر رہا ہے کہ کیوں اور کہاں کیا کرنا چاہیے۔
کسی بھی ناکامی کا تجزیہ مستقبل کی بہتر لڑائی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی کو شک ہو کہ کیا ایسی کوئی مشق کبھی کی گئی۔ ہم اس طرح کب تک اندھا دھند اور غیر تزویراتی طریقے سے لڑتے رہیں گے۔
کیا حملہ آور ہماری انٹیلی جنس سے کو شکست دے رہے ہیں، یا پاکستان کے محافظوں کو ابھرتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہماری ایجنسیاں توجہ تبدیل کریں۔ آپٹکس کے لیے مزید وقت بچا۔ یہ ان خطرناک گروہوں کو ختم کرنے کا وقت ہے جو چھوٹے سائز کے باوجود بڑی تباہی کی استعداد رکھتے ہیں۔
ستم ظریفی پر غور کریں: ان حملوں کے سائے میں، ہمیں بہت سے کردار ملتے ہیں جن میں منصوبہ ساز، فنانسر، دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈی) تیار کرنے کی مہارت رکھنے والے افراد، نقل و حمل کے ذمہ دار، عمل درآمد کے لیے رہنمائی کرنے والے ہینڈلرز، اور مقامی سہولت کار شامل ہیں جو خطرناک حد تک بغیر کسی رکاوٹ کے اکثر سرحدوں اور دائرہ کار کے باہر کام کرتے ہیں۔
اس سے ہماری انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک واضح خلا کی نشاندہی ہوتی ہے– ان نیٹ ورکس کی موافقت اور پنپنے کی صلاحیت – انہیں روکنے کی ہماری نام نہاد کوششوں کے باوجود۔
افسوس اس واقعے کی ایک جہت اور بھی ہے: ملک کے ایک حصے میں دوپہر کے وقت دھماکے ہوئے، جبکہ دوسرے شہروں میں اسی جوش و خروش، دھوم دھام کے ساتھ مقدس دن منایا جاتا رہا۔ کہیں ذرہ برابر بھی پچھتاوا نظر نہیں آ رہا تھا۔
حکومت کوئی ذمہ داری نہ لیتے ہوئے غافل رہی، ایسا لگتا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی اور نیشنل ایکشن پلان کہیں گم ہو چکے ہیں۔
کیا یہ ان بنیادی عوامل کی جانچ پڑتال کرنے کا وقت نہیں جن کی وجہ سے ان نیٹ ورکس کو یہاں پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے؟
کیا یہ وقت بنیاد پرستی کو ہدف بنانے، سماجی و اقتصادی عدم مساوات کو دور کرنے اور بین الاقوامی تعاون کو بہتر بنانے کا نہیں ہے تاکہ تشدد کی ان محتاط منصوبہ بند کارروائیوں کے پیچھے کے راز سے پردہ اٹھایا جا سکے؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود بے روزگار نوجوانوں کو اپنے گروپ کی صفوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور انہیں شہری علاقوں کے بہت سے تعلیم یافتہ افراد سے زیادہ تنخواہیں دیتے ہیں۔ یہ پرکشش ورژن ہے، جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ گروہ معروف کاروباری اداروں سے بھتہ خوری میں مشغول ہیں۔
بہرحال، اصل مسئلہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی کے نظام کے نقطہ نظر میں مضمر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محتاط طریقے سے منصوبہ بندی اور حکمت عملیوں کے بجائے، وہ اکثر روایتی ردعمل سہارا لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ سمجھتے ہیں کہ غیرمتعین منصوبہ بندی محتاط منصوبہ بندی پر غالب آ جاتی ہے۔
اس متجسس دنیا میں، ان حربوں سے کم سے کم نتائج ملتے ہیں، جو عظیم تاریخوں اور زمین پر موجود تلخ حقیقتوں کے درمیان ایک شاندار موازنہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ واقعی فکر انگیز ہے۔
بلا تاخیر، یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہر سکیورٹی سے متعلق واقعے کا بعد از کارروائی مکمل جائزہ لیا جائے۔
ہمیں چاہیے کہ کوتاہیوں کو چھپانے کی کوئی گنجائش نہ چھوڑتے ہوئے، جو کچھ سیکھا اسے اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ شیئر کریں۔ جب بھی سکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہو اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار رہیں۔
ہمارے اگلے اقدامات واضح ہونے چاہییں: ہمیں مستقبل کے حملوں کو روکنے کے لیے صلاحیت سازی اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں قیادت کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے فرنٹ لائن اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی افراد بھرتی کریں اور بیک وقت صحت کی ضروریات، تعلیم اور ضروری خدمات تک رسائی کو بہتر بنائیں۔
دہشت گردی کی افزائش گاہیں کمزور کرنے کے لیے خواتین کو بااختیار بنائیں۔ سلیکٹڈ پالیسی کے اصولوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کامیابی صرف ہر سطح پر انصاف میں مضمر ہے۔
مصنف نے سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور وفاقی سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔