عورت اور مرد بالکل الگ مخلوق ہیں!

مرد کی مثال لیں تو صرف ایک لفظ مردانگی اس کی جان سے ایسے چمٹا ہے جس طرح ’پٹھان‘ لفظ کے ساتھ ’بہادری‘ لازم کر دی گئی ہے۔ آپ بھاگنا بھی چاہیں کمبل چھڑا کر لیکن کمبل خود آپ کو نہیں چھوڑے گا۔

یہ مرد آخر چاہتے کیا ہیں؟ ان کے دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے؟ یہ ایسے کیوں ہیں؟

عورت آخر چاہتی کیا ہے، اس کی نفسیات کیا ہے؟ یہ ایسا کیوں سوچتی ہے؟

ہماری زمین پر انسانوں کی کھوج اگر لگائی جائے تو لاکھوں سال پہلے تک کے سراغ نکلتے ہیں لیکن اتنے زیادہ عرصے کے باوجود آج تک جو بندہ جوان ہو گیا، یہ دو سوال اس کے بعد مرتے دم تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

کتابیں بھری پڑی ہیں، مردوں نے عورتوں کے بارے میں کافی زیادہ لکھا ہے، خواتین نے کم کیوں لکھا؟ شاید اس لیے کہ تاریخ نے کھل کر لکھنے کا موقع انہیں ابھی ایک دو صدی پہلے ہی دیا ہے۔

تو اتنا زیادہ کچھ لکھے جانے کے باوجود ہر کپل (جوڑے) کو اس مسئلے کا ازلی اور سدابہار ٹائپ سامنا رہتا ہے۔

مجھے اس بارے میں صرف ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ عورتیں اور مرد انسان ہونے کی حد تک تو بلاشبہ ایک ہی نسل کے ہیں لیکن اس کے بعد ۔۔۔ یہ دونوں بالکل الگ مخلوق ہیں۔

مرد کی دنیا، اس کے سسٹم، اس کے سوچنے کا نظام، اس کی روٹین، سب کچھ بالکل الگ ہے اور خواتین کا تھاٹ پروسیس، ان کا جسمانی نظام، ان کی نفسیات، ان کے معمولات وہ یکسر علیحدہ ہیں۔

مرد جب تک عورت ہونے کا تجربہ نہ کر سکے، اسے علم نہیں ہو سکتا کہ عورت کہاں سے سوچ رہی ہے، عین اسی طرح جب تک ایک خاتون، مرد کی زندگی نہ گزار سکیں، تب تک انہیں سمجھ نہیں آ سکتا کہ یہ انسان آخر ہم سے کیا چاہتے ہیں۔

جب دوسرے کی طرح محسوس کرنا ہی ممکن نہ ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں سوائے مخالف جنس کے بارے میں تھیوریاں پیش کرنے کے؟

مردوں نے خواتین کو جتنا سمجھنا چاہا، انہوں نے اپنے دماغ کے حساب سے سوچا، تجربے کیے، ان کے بعد نتائج بھی نکالے مگر آج تک آپ کے پاس کوئی ایک حتمی نتیجہ نہیں ہے کہ عورت عین کس وقت کیا سوچ رہی ہے یا کیا چاہ رہی ہے۔

اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میڈیکل والوں کی توجہ بڑے عرصے تک بچے کی پیدائش سے ریلیٹڈ مسائل تک رہی یا پھر انسانی دماغ کو وہ جنرلائز کرتے رہے کہ دونوں کا ایک جیسا ہو گا، مطلب مرد کے دماغ میں اگر ایک جمع ایک گیارہ ہے تو خواتین کے یہاں بھی ویسا ہی ہو گا، ایسا نہیں تھا۔

ہوا تو یہاں تک کہ خواتین کے جنسی نظام میں بھی کئی اہم چیزیں آج تک صرف فرضی یا افسانوی طور پر فٹ کر دی گئیں، یا جو کچھ موجود تھا اس سے لاپروائی برتی گئی۔

مجھ جیسا عام انسان پوری کائنات کو اپنے دماغ کے حساب سے سمجھنا شروع کرتا ہے۔ وہ اپنے آس پاس والوں میں اپنا عکس ڈھونڈتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ میں ایسا ہوں، یہ سوچتا ہوں، تو پوری دنیا ویسی ہی ہو گی اور وہی سب کچھ سوچتی ہو گی جو کچھ میرے دماغ میں ہے۔

جب اسے مطلوبہ نتیجے نہیں ملتے تو وہ فرض کر لیتا ہے کہ فلانے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور اس کا رویہ اس وجہ سے ’نارمل‘ نہیں ہے۔ اس جگہ اگر ہم صرف یہ سمجھ لیں کہ نارمل کچھ نہیں ہے، تو معاملہ بہتر ہو سکتا ہے۔

اسی خیال کو ہم اگر تھوڑا سا پھیلائیں تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عورت اور مرد، دونوں ایک دوسرے کی امید والے رویوں پر پورا نہیں اترتے تو یہ بھی نارمل ہے۔ ایک تصویر آپ پچاس مختلف لوگوں کو دکھائیں، سب کا ردعمل الگ ہو گا، اسی طرح ایک سچوئشن پہ ایک عورت اور ایک مرد کا ردعمل الگ کیوں نہیں ہو سکتا؟

آپ صرف یہ دیکھیں کہ ہر ماہ جو چار پانچ دن ہارمون امبیلنس کا سامنا عورتوں کو رہتا ہے، کوئی تصور ان کیفیات کا، آپ کے دماغ میں بن سکتا ہے؟ اس سے پہلے اور اس کے بعد ان کی طبیعت میں کتنے اتار چڑھاؤ آتے ہیں، کیا یہ اندازہ ہے؟

نہیں ہو گا اور اندازہ ہونا ممکن بھی نہیں کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی اس بارے میں جاننا ہی نہیں چاہتا۔ اس میں ہمدردی والا پوائنٹ کوئی نہیں، نہ ہی کسی کی نااہلی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں رویہ صرف وہ قابل قبول ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، اس سے دائیں بائیں ہم کچھ نہیں سمجھنا چاہتے اور یہ مسئلہ دونوں طرف ہے۔

مرد کی مثال لیں تو صرف ایک لفظ مردانگی اس کی جان سے ایسے چمٹا ہے جس طرح ’پٹھان‘ لفظ کے ساتھ ’بہادری‘ لازم کر دی گئی ہے۔ آپ بھاگنا بھی چاہیں کمبل چھڑا کر لیکن کمبل خود آپ کو نہیں چھوڑے گا۔

عورت اور مرد کے تعلق میں کئی فیصلے مرد اسی مردانگی کی تصوراتی صلیب پر چڑھا کر رہا ہوتا ہے لیکن سمجھ اس کی بھی دونوں طرف کسی کو نہیں آ رہی ہوتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بستری معاملات میں دیکھیں تو بھی یہ کُشتی صدیوں سے مرد ہی نے لڑنی ہے اور اس ون سائیڈڈ صورت حال کا خود انہی کو اندازہ نہیں ہے۔ ہو بھی، تو بات ہنسی مذاق میں اڑ جاتی ہے لیکن یہ بھی خواہ مخواہ کا ایک بہت بڑا پریشر ہوتا ہے۔

ہو کیا سکتا ہے؟

ایک دوسرے کو مزید سمجھنے کی بجائے ماننا شروع کر دیا جائے۔ کسی جھگڑے کی صورت میں آپ مخالف جنس کو جتنا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اگلی بار کے لیے چیزیں اتنی ہی پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔

یعنی آپ نے سمجھ لیا کہ اس مرتبہ جو تنازع ہوا، اس کی بنیادی وجہ فلاں رویہ تھا، یا کوئی ایسی چیز تھی جو آپ نے طے کر لی کہ اگلی بار نہیں ہونی چاہیے۔ اب اگلی بار کوئی نیا مسئلہ عین اسی طرح کی صورت حال میں کھڑا ہو جائے گا اور آپ کی سمجھ دانی بہت پیچھے لیٹی ہاتھ مل رہی ہو گی۔

ماننا یوں ہے کہ وجہ تلاش کیے بغیر سر جھکا لیا جائے۔ آف کورس، اس دور میں اگر کوئی ناہنجار ایسی بات کرتا ہے کہ وجہ جانے بغیر سرِ تسلیم خم کیا جائے تو سب سے پہلے اس کا سر اڑنا چاہیے لیکن، سوچنے میں حرج کیا ہے؟

ساتھ رہنا ہے تو وجہ غیر ضروری سی چیز ہے۔ احترام اور محبت میں وجہ یا مقصد جتنا زیادہ گھستا جاتا ہے، رشتے کی نوعیت اتنی ہی سائنٹیفک قسم کی رہ جاتی ہے۔ سائنس نے پہلے ہی کتنی مدد دی ایک دوسرے کو سمجھنے میں آپ کو؟

اور ویسے بھی یار، جان کر مانا تو کیا مانا؟


یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ