’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘، ہر بار یہ بات ٹھیک نہیں ہوتی

تاریخ میں کسی کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جائے یا اسے گالیاں دی جائیں، اسے خاک کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ اسے ’بھگتنا‘ پڑتا ہے۔ جو مر گیا اسے کیا پتہ کہ پچاس سال بعد کون اسے یاد کر رہا ہے۔

ایڈولف ہٹلر 1937 میں تقریر کرتے ہوئے (اے ایف پی)

جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، دنیا کی ہر زبان میں موجود ہونے کے باوجود یہ بات بالکل غلط ہے۔

تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں۔ دنیا میں اکثر معاملے بے نتیجہ رہ جاتے ہیں!

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ جس نے ’جیسا‘ کیا ہو اس نے ’ویسا‘ ہی بھگت بھی لیا ہو۔ فرض کیا ہزار میں سے ایک بار ایسا ہو بھی جائے تو نوٹ کیجیے گا کہ عمل بہت زیادہ شدید تھا اور جو آپ کہتے ہیں کہ ’نتیجہ بھگتنا پڑا‘ وہ مقابلتاً بہت ہی کم تھا۔

ہٹلر نے لاکھوں بندے مارے دوسری عالمی جنگ میں، خود اپنے آپ کو شوٹ کر کے اس نے خود کشی کر لی، تو وہ ’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ کہاں گئی؟

کچھ افواہیں یہ بھی پھیلیں کہ ہٹلر غائب ہو گیا یا زہر کھا کے مرا۔ جیسے بھی مرا ہو، لاکھوں لوگوں کا قتل جن میں مرد، عورتیں، معذور، بوڑھے، بیمار، جنگی قیدی، یہودی، سرب، جرمن، چیک، اطالوی، فرانسیسی، یوکرینی اور ہزاروں بچے شامل تھے، کیا ان سب کی اذیت ناک ہلاکتوں کا بدلہ واحد ہٹلر کی موت ہو سکتی ہے؟

لاکھوں لوگ۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جس میں پوری کائنات بند ہے۔ کہنے میں آپ ایک دم بے درد ہو کے اسے بول سکتے ہیں۔ سوچنے بیٹھا جائے تو ہر مرنے والے کی الگ کہانی ہو گی، الگ خواب ہوں گے، الگ اذیت ہو گی اور پھر پیچھے رہ جانے والوں کی زندگیاں ہوں گی۔ کیا ان سب کی مجموعی اذیتوں کو صرف ایک بندے کی موت پورا کر سکتی ہے؟

سوچیں، یہاں ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘ کا سین کدھر گیا؟

سرل جان ریڈکلف نے پاکستان اور انڈیا میں تقسیم کی لکیر کھینچنا تھی۔ ایک ایسا آدمی جس نے زندگی میں کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا تھا اسے یہاں بھیجا گیا۔ وہ آیا، اس نے لکیریں کھینچیں اور نکل گیا۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ اس نئے نویلے ’بارڈر‘ کے بعد ’غلط ملک‘ میں تھے۔ لاتعداد بے قصور انسان ادھر سے ادھر آنے جانے کے چکر میں کٹ گئے، مر گئے۔

ریڈکلف بعد میں برطانیہ واپس چلے گئے۔ مختلف اداروں کی صدارت کی، حکومتی اعزازت سمیٹے، نوابی زندگی گزاری، لیکچر دیے، کتابیں لکھیں اور 1977 میں اطمینان سے مر گئے۔ 1947 کے بعد 30 سال وہ زندہ رہے، ’جیسی کرنی‘ کے مطابق ان کے ساتھ بھی کوئی ’ویسی بھرنی‘ نہیں ہوئی، ہو بھی نہیں سکتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بڑی مثالیں تھیں۔ ان میں کئی اور لوگ شامل کیے جا سکتے ہیں۔

کسی شخص کا عہدہ جتنا بڑا ہو گا، فیصلے اتنے ہی اہم ہوں گے اور ان کے اثرات بھی اسی طرح لاکھوں لوگوں پہ ہوں گے۔

تاریخ میں کسی کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جائے یا اسے گالیاں دی جائیں، اسے خاک کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ اسے ’بھگتنا‘ پڑتا ہے۔ جو مر گیا اسے کیا پتہ کہ پچاس سال بعد کون اسے کیسے یاد کر رہا ہے؟ صرف اتنا ہے کہ وہ بندہ اس وقت اپنی زندگی میں خود تاریخ بنا رہا ہوتا ہے اور اسے اگر کسی چیز کی پروا ہوتی ہے تو وہ جیت، فتح یا طاقت ہوتی ہے جسے اس نے ہر حال میں اپنی موت تک قائم دائم رکھنا ہوتا ہے۔

اگر آپ ہٹلر یا ریڈکلف والے معاملے میں کہتے ہیں کہ ’جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے‘ تو یہ ایک اور بھیانک قسم کی مثال ہے۔

جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا تو لوگ کبھی شادی کرتے اور نہ ہی اس دنیا میں گوانتاناموبے کا وجود ہوتا!  

تو کیا جیسی کرنی ویسی بھرنی والا ’کائناتی اصول‘ صرف ہم جیسے غریبوں کے لیے ہے؟ وہ لوگ جن کے فیصلوں سے متاثر ہونے والے نسبتاً کم ہوتے ہیں؟

اس محدود ترین دائرے میں بھی دیکھ لیں۔ آپ کے سامنے کوئی آدمی ساری زندگی دوسروں کی گردنوں پہ پیر رکھ کے اوپر چڑھے گا، ٹھیک یا غلط، ہر طریقے سے اپنا راستہ بنائے گا، کسی کو کچلے گا، کسی کو نقصان پہنچائے گا، جس پہ مہربان ہو گا اسے صرف دھکا دے دے گا، کامیاب ترین ہو کے ریٹائر ہو گا اور باقی زندگی سکون سے گزار کے مر جائے گا۔ اسے بھی اپنے ’کیے‘ کا کوئی واضح نتیجہ نہیں بھگتنا پڑا۔

ہوتا صرف ایسا ہے کہ زندگی میں چند بڑے لوگ اگر اپنی کسی غلطی سے رگڑے میں آ جاتے ہیں تو ان کے ماضی سے ایسے کئی ’عبرتناک‘ واقعات انہی کے جاننے والے ڈھونڈ ڈھانڈ کے نکال لیتے ہیں اور اس محاورے کی کسوٹی پہ چڑھا کر آپ کو بتاتے ہیں کہ دیکھیں فلاں نے برا کیا تھا تو اس کے ساتھ آخر برا ہی ہوا۔

آپ خود سوچیں، اپنی معلوم تاریخ میں کسی سفاک، ظالم یا چالاک آدمی کے ساتھ اس کے غلط کاموں کے حساب سے، اس کی زندگی میں کتنا ہی برا ہوا ہے آج تک؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ