فلسطین پر قائداعظم کے موقف میں تبدیلی ’کفر‘ نہیں: نگران وزیراعظم

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین سے متعلق ’دو ریاستی حل‘ کے معاملے پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے موقف میں تبدیلی کوئی ’کفر‘ نہیں ہے، تاہم اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ یہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ پانچ دسمبر 2023 کو اسلام آباد میں ایک انٹرویو کے دوران (حمزہ قمر/ انڈپینڈنٹ اردو)

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطین کے ’دو ریاستی‘ حل پر قائد اعظم کے موقف سے ’روگردانی‘ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے ذمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔‘

بدھ کی رات اے آر وائے نیوز کے پروگرام ’الیونتھ آور‘ میں میزبان وسیم بادامی کو دیے گئے انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مسئلہ فلسطین، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات، فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل، عام انتخابات اور غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی بے دخلی سمیت دیگرمعاملات پر تفصیلی گفتگو کی۔

انٹرویو کے دوران مسئلہ فلسطین سے متعلق دو ریاستی حل کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے۔ دوریاستی حل کی بات ہم سے منسلک کردی گئی ہے، جیسے ہم نے یہ تجویز دے دی ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ جس طرح فلسطین میں ’بچے اور خواتین شہید کیے جارہے ہیں، بتائیں اس کا حل کیا ہے؟‘

انہوں نے میزبان وسیم بادامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی صورت میں اگر کوئی تجویز موجود ہے تو سامنے لائیں۔ فلسطینیوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں فلسطینی ہوں؟ آپ فلسطینی ہیں؟ یا کانفرنس کروانے والے فلسطینی ہیں؟ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے ساتھ، اسرائیلیوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ کن اصولوں پر زندگی گزارنی ہے؟ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے۔ ہم ہمسائے ہیں، ہم ان کا حصہ نہیں ہیں، انوار کا بچہ نہیں مارا جا رہا، بادامی کا بچہ نہیں مارا جا رہا، جن لوگوں کے بچے شہید ہو رہے ہیں، پہلا حق ان کا ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟‘

کیا حماس فلسطینیوں کی ترجمان ہے؟ اس سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’اس کا فیصلہ بھی فلسطینی کریں گے، میں یا آپ نہیں کریں گے۔ ہماری طرف اس چیز کو دھکیلنا کہ ہم یہ تجویز دے رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔‘

بقول انوار الحق کاکڑ: ’میرے لیے ہرفلسطینی اہم ہے۔۔۔ یہ حق بھی فلسطینیوں کو دینا چاہیے کہ ان کی نمائندہ تنظیم کون سی ہے۔ میں یا باہر کے لوگ ان پر تھوپ نہیں سکتے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے اور اس حوالے سے جو اسلامی دنیا کا موقف ہے، اس کا ساتھ دینا چاہے اور کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں امن ہو اور زندگی کا جو حق ہے، وہ فلطسنیوں کو ملنا چاہیے۔

انٹرویو کے دوران میزبان وسیم بادامی نے سوال کیا کہ ’جب ہم اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں تو کیا ایک طرح سے ہم اسرائیل کے وجود کو ہی نہیں تسلیم کر رہے، جو کہ قائداعظم کے اس بیان سے روگردانی کرتا ہے کہ اسرائیل امریکہ کا ایک ناجائز بچہ ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم اس کے خلاف نہیں جا رہے؟‘

جس پر نگران وزیراعظم نے جواب دیا: ’بہت سارے لوگ اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ سیاست کوئی کام کرنے (doable) کا نام ہے، اور سیاست کچھ حاصل کرنے (achievable) کا نام ہے۔ قائداعظم نے اور جو ادیان کے نبی اور رسول گزرے ہیں، ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان پر جو الہام آیا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن اس سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور آئے ہیں، حالات اور واقعات کی روشنی میں، آنے والے وقت میں جو دوسرے لوگ ہوتے ہں، وہ اس پر سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کچھ تعمیری موقف یا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لائی جاسکتی ہے اور آ سکتی ہے، قائداعظم کی اس پوزیشن کے تبدیل ہونے کی پابندی نہیں ہے، اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے ذمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اس پر بحث ہوسکتی ہے۔‘

نگران وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’کوئی بھی پاکستانی حکومت سب سے پہلے پاکستانی قوم کا مفاد دیکھتی ہے۔ ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ (فلسطین میں) جو ظلم کیا جا رہا ہے، اس کے تحت کیا اقدامات اٹھانے چاہییں اور کیا نتائج ہوں گے، اس پر مشاورت ہونی چاہیے۔‘

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے حال ہی میں اسلام آباد میں حرمت اقصیٰ کانفرنس سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا تھا کہ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ میں اس کی جارحیت رک سکتی ہے۔ اس حوالے سے جب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو کرنا چاہیے۔

بقول انوار الحق کاکڑ: ’کسی ایک صاحب کے کہنے پر اگر پوزیشن لے لیں گے تو ایسا نہ ہو کہ کل کو اس پوزیشن لینے پر پچھتا رہے ہوں۔ میرے خیال میں مشاورت کا عمل پارلیمان کی صورت میں آنے والا ہے، ان کو یہ عمل کرنے دیں۔ دھمکی دینی ہے، جنگ کرنی ہے، گفتگو کرنی ہے تو یہ فیصلہ وہاں ہو لینے دیں۔‘

سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر ’سرپرائز‘ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد مارے گئے جبکہ کئی افراد کو قید کرلیا گیا۔

اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں 18 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، غزہ کے بیشتر علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش نے غزہ کی صورت حال پر آرٹیکل 99 کا اطلاق کرکے قومی سلامتی کا اجلاس بھی بلوایا تاہم سیز فائر کی قرارداد امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے باعث منظور نہ کی جاسکی۔

’ٹی ٹی پی ناک رگڑ کر بھی تائب ہونے کا اعلان کرے تو معافی کا حق لواحقین کے پاس ہے‘

کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ تشدد کے استعمال اور مذاکرات کا حق ریاست کے پاس ہوتا ہے، لیکن ’ڈائیلاگ یا مذاکرات آپ اس وقت کرتے ہیں جب آپ کا حتمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ تشدد کو ترک کرچکا ہے، یہ تنگ آچکے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ ریاست کو کسی صورت میں ان کو ایک موقع دینا چاہیے، یہ رجوع کرنا چاہتے ہیں، یہ تائب ہوگئے ہیں، یہ پلٹ کر آنا چاہتے ہیں، اس طرح نہیں کہ الیگزینڈر دی گریٹ کی طرح، سکندر اعظم کی طرح، فاتحین کی طرح آ جائیں۔‘

نگران وزیراعظم نے مزید کہا: ’کل کو یہ ٹی ٹی پی 50 ہزار، 30 ہزار ناک رگڑ کے علی الاعلان یہ کہہ دیں کہ ہم تائب ہیں، ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کی، معاشرے کے ساتھ زیادتی کی، اس قوم کے ساتھ زیادتی کی، اس کے بعد بھی ان (دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے) لواحقین کو حق ہے کہ وہ سوچیں کہ ان سے بات کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے؟ ان کو معاف کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے؟ یہ حق ان کے پاس ہے اور ان کے توسط سے ریاست کے پاس ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انٹرویو کے دوران میزبان نے نگران وزیراعظم سے حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والے حملوں اور افغان حکومت کے اس سلسلے میں کردار کے حوالے سے بھی سوال کیا، جس پر انوار الحق نے جواب دیا کہ ’افغان کی سرزمین سے جڑے ہوئے حملے ہو رہے ہیں، یہ وہ بھی تسلیم کرتے ہیں، ہمیں بھی پتہ ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اس پر بات کی جا سکتی ہے کہ ان حملوں کو روکنے کے سلسلے میں ان کی صلاحیت کتنی ہے، یا (ان کے) ارادے کیا ہیں؟ دونوں پر بات ہوسکتی ہے لیکن یہ لوگ افغانستان میں موجود ہیں، کچھ ہماری طرف بھی ان کے لوگ ہیں۔ ٹی ٹی پی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں، لہذا اس پورے پیرائے میں جب تک افغانستان کی صورت حال اور ان کی جانب سے عزم سامنے نہیں آئے گا تو یہ بات ختم نہیں ہوگی۔‘

افغانستان کی جانب سے تعاون سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ چیزیں دو ممالک کے درمیان تعلقات پر محیط ہیں۔ ہم تو اور زیادہ تعاون چاہیں گے، ہمارے یعنی پاکستان کے نقطہ نظر سے اب تک (تعاون) کم ہی رہا ہے۔ (ہم) مزید بڑھاوا چاہیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ متعلقہ سطح پر ہمارے محکمے ان سے رابطے میں ہیں اور ہم اسے کامیابی سے اختتام کو پہنچائیں گے۔‘

عسکریت پسند تنظیموں کےساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’اگر کسی کو اب بھی کنفیوزن ہے تو یہ قومی بدبختی ہے۔ آپ دہشت گردوں کے ساتھ اس طرح سے مذاکرات نہیں کرتے، مجھے بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ آپ تو اس چیز کے حامی تھے کہ ٹی ٹی اے (افغان طالبان) اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہوں، اس میں کوئی شک ہیں، کیونکہ افغانستان امریکہ کا گھر نہیں تھا، انہوں نے اپنے گھر واپس جانا تھا اور وہ ایک مقبوضہ فورس کے طور پر ٹریٹ ہو رہے تھے، لیکن ہم کہاں جائیں گے، میں یا آپ یہ سرزمین چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟ ہمارے آپس میں 500 قسم کے اختلافات ہیں لیکن ہم اس سوشل سٹرکچر پر رضامند ہیں۔‘

’افغانوں کی واپسی پر کوئی مستقل پابندی نہیں‘

افغانوں کے انخلا کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’ہماری بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہمیں پاکستانیوں کے دلوں کا خیال رکھنا ہے کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ ان کے دل اور دماغ کو ہم کیسے جیتیں جن پر آپ آئینی طور پر حکومت کرتے ہیں، ہم افغانوں پر تو حکومت نہں کرتے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغانوں کی واپسی پر کوئی مستقل پابندی نہیں ہے، وہ اپنے وطن جائیں اور سفری دستاویزت بنوا کر جس وجہ سے آنا چاہتے ہیں، اس جواز کی وضاحت کرکے آئیں۔ ’اس میں ایسی کون سے غیر شرعی، غیر قانونی بات ہے، جس سے لوگوں کے دل دکھ رہے ہیں؟‘

’آج کی تاریخ میں الیکشن میں کوئی التوا نظر نہیں آ رہا‘

آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات اور سکیورٹی کی صورت حال کے حوالے سے نگران وزیراعظم نے کہا کہ آج کی تاریخ میں انہیں الیکشن میں کوئی التوا نظر نہیں آ رہا۔

بقول انوار الحق کاکڑ: ’میرے مطابق تو آٹھ فروری کی صبح کو نو سے پانچ بجے کے درمیان پولنگ کا وقت ہے اور یہ معاملے کا اختتام ہے۔‘

’فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اصول کی جیت‘

سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے حوالے سے دیے گئے گذشتہ روز کے فیصلے کو ’اصول کی جیت‘ قرار دیتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’میں سپریم کورٹ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس نظریے کو سمجھا اور اس پر اپنا اظہار کیا، جو سوشل آرڈر کے لیے بہت ضروری ہے۔‘

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جنہوں نے نو مئی کو فوجی تنصیبات پرحملہ کیا، ان کا کیس فوجی عدالتوں میں چلنا چاہیے۔ ہاں سول اداروں کے سامنے احتجاج کرنے والوں، پلے کارڈز اٹھانے والوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح سپریم کورٹ، پارلیمان کو پتھر مارنے والے کا کیس بھی فوجی عدالت میں نہیں ہونا چاہیے۔

ساتھ ہی ایک سوال کے جواب میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو نو مئی کے واقعات کا ماسٹر مائنڈ ٹھہرانا ان کا کام نہیں۔ ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے یہ تحقیقاتی اداروں اورعدلیہ کا کام ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کیے جانے کے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ ایک کاغذ لہرا کر انہوں نے کہا کہ یہ سائفر کا حصہ ہے اور اپنا بیانیہ بنایا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اپنی حکومت گرانے میں ملوث ذمہ داروں کے تعین کے حوالے سے بیانات سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’اگر ہم نے سبق سیکھنے ہیں تو 14 اگست 1947 سے شروع کریں کہ کہاں غلطیاں کیں۔‘

’اسٹیبلشمنٹ اور ایوان صدر سے اچھے تعلقات ہیں‘

نگران وزیراعظم نے انٹرویوکے دوران ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور ایوان صدر سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔

انہوں نے صدر عارف علوی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس منصب کے حوالے سے جتنی حکومت کو ضرورت پڑی، وہ حمایت ہمیں ملی ہے، بہت زیادہ رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ’صدر پاکستان ملک سے پیار کرنے والے شخص ہیں۔ ایسا لگتا نہیں کہ صدر ریاست کے معاملات میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان