دوسری شادی پر شوہر کو سزا دلوانے والی خاتون نئی زندگی کے لیے پرعزم

کراچی کی ایسٹر یونس نے دسمبر 2020 میں جوشوا الیاس سے شادی کی، جس کے بعد وہ ملازمت کے لیے دبئی منتقل ہو گئیں۔ ایک سال بعد اپنے کزن کی شادی کے لیے وہ پاکستان واپس لوٹیں تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے۔

ایسٹر یونس کے مطابق اس کیس کی پیروی کرنے کا فیصلہ صرف شوہر کی سزا کے بارے میں نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد اپنی کمیونٹی کی دیگر خواتین کو خاموشی توڑنے کی ترغیب دینا بھی تھا (عرب نیوز)

اپنے شوہر کی دوسری شادی کے خلاف ایک سال تک جاری رہنے والی قانونی جنگ جیتنے کے بعد ایک پاکستانی مسیحی خاتون نے کہا ہے کہ وہ اپنی زندگی اور کیریئر کو نئے سرے سے تعمیر کرنا چاہتی ہیں۔

پاکستان میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کو ایک سے زیادہ شادی کرنے پر سزا ملنے کا یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔

مسیحی برادری کے کئی افراد کا ماننا ہے کہ شادی ایک زندگی بھر کا بندھن ہے اور اس برادری کے لوگ دوسری شادی کرنے کو ’گناہ‘ سمجھتے ہیں جب تک کہ پہلا شریک حیات زندہ ہو۔

ایسٹر یونس نامی خاتون کی جانب سے پولیس شکایت پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 494 کے تحت درج کی گئی تھی جو مسیحیوں کے لیے شریک حیات کی زندگی کے دوران طلاق کے بغیر دوسری شادی پر پابندی لگاتی ہے۔

پاکستان میں کرسچن میرج ایکٹ 1872 اور کرسچن ڈیورس ایکٹ 1869 دونوں کے تحت دوسری شادی پر پابندی ہے۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے، حالانکہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہے کہ کسی پاکستانی مسیحی شخص کو بیوی کے زندہ ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنے پر عدالت نے سزا دی ہو۔

تقریباً دو دہائیاں قبل لاہور ہائی کورٹ نے ایسے ہی ایک مقدمے میں ایک شخص کو چار سال قید اور 20 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

تازہ ترین کیس کی تفصیلات کے مطابق کراچی سے تعلق رکھنے والی مارکیٹنگ ایگزیکٹیو ایسٹر یونس نے دسمبر 2020 میں جوشوا الیاس سے شادی کی تھی جس کے بعد وہ اپنے شوہر اور سسرال والوں کی رضامندی سے ملازمت کے لیے دبئی منتقل ہو گئی تھیں۔

وہ ایک سال بعد اپنے کزن کی شادی کے لیے پاکستان واپس لوٹیں تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے جس پر ایسٹر نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔

کراچی کے ضلع جنوبی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے نو دسمبر کو الیاس کو تین سال قید اور 20 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ایسٹر یونس نے اس حوالے سے عرب نیوز کو بتایا: ’ہمیں کبھی بھی کسی کے چھوڑنے کی وجہ سے اپنی زندگی خراب نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجائے جینا سیکھنا چاہیے۔ میں (دبئی میں) اپنا کام دوبارہ شروع کر دوں گی۔‘

جب ایسڑ یونس کو پہلی بار اپنے شوہر کی دوسری شادی کا پتہ چلا تو انہوں نے ایک پادری شفیق کنول سے مشورہ کیا اور اگلے تین ماہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے شواہد اکٹھے کرنے میں گزارے۔

جون 2023 میں پولیس شکایت درج کی گئی جس کے بعد ایسٹر نے عدالت سے رجوع کیا، جس نے غیر قانونی دوسری شادی کرنے پر پی پی سی کی دفعہ 494 کے تحت الیاس کو تین سال قید اور 20 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہیں پی پی سی کی دفعہ 468 اور 471 کے تحت ایک اور شادی کا سرٹیفکیٹ بنانے کے جرم میں تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسٹر یونس نے کہا: ’جب فیصلہ سنایا گیا اور سزا سنائی گئی تو یہ میرے لیے بہت اچھی خبر تھی کیونکہ جب میں نے یہ کیس شروع کیا تو بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ مجھے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اپنا پیسہ ضائع کروں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس کی پیروی کرنے کا فیصلہ صرف شوہر کی سزا کے بارے میں نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد اپنی کمیونٹی کی دیگر خواتین کو خاموشی توڑنے کی ترغیب دینا بھی تھا۔

ان کے بقول: ’جب میں نے آواز اٹھائی تو یقین کریں دوسری لڑکیوں نے مجھے فون کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی ایسا ہی مسئلہ درپیش ہے، ہمارے ساتھ کھڑی ہو جاؤ، ہماری مدد کرو۔‘

انہوں نے دو خواتین کی مثال دیتے ہوئے کہا: ’ان دونوں نے کہا کہ ان کے اپنے وکیل نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ کوئی قتل کا معاملہ نہیں ہے۔‘

پادری شفیق کنول نے کہا کہ ’مسیحی قانون صرف ایک شادی کی اجازت دیتا ہے اور پہلی شریک حیات کے زندہ ہونے پر دوسری شادی کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔‘

ان کے بقول: ’جب ایسٹر یونس اور ان کے اہل خانہ پہلی بار میرے علم میں یہ بات لائے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ ان کے خلاف کھڑے ہوں اور ہم انہیں (ان کے شوہر کو) سلاخوں کے پیچھے بھیج دیں گے۔ آج ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔‘

پادری نے کہا کہ ’اب یہ ایسٹر یونس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو نئے سرے سے جاری رکھنا چاہتی ہے یا اپنے شوہر کے پاس واپس جانا چاہتی ہیں۔‘

اس بارے میں ایسٹر نے کہا: ’اگر وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں تو میرا مذہب مجھے ان کو معاف کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‘

ان کے بقول: ’میرے مذہب میں طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے اور میرا مذہب مجھے معاف کرنے سے منع نہیں کرتا۔ اگر وہ میری زندگی میں واپس آئے تو میں انہیں ضرور معاف کر دوں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر