’تسی مارنا کتھوں سکھیا۔۔۔؟‘

آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا؟‘ اس سوال کا جواب آنے سے پہلے صلاح الدین مر گیا اور اس کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اس کی موت کے بعد اس نظام کا منہ چڑا رہی ہیں۔

کیا یہ قتل پولیس اہلکار وں نے کیا؟ یا نظام میں موجود اس رعونت نے جس کے پاس لامحدود اختیارات ہیں؟ (سوشل میڈیا)

’تسی مارنا کتھوں سکھیا۔۔۔؟‘ اس سوال کے بعد وہ مر گیا ۔۔ ایک مقتول نے کبھی کسی قاتل سے ایسا سوال نہیں پوچھا۔ کسی مظلوم نے کبھی  ظالم سے ایسا سوال نہیں پوچھا جو دیوانے صلاح الدین نے پوچھا۔۔۔جب وہ پہلی بار نظر آیا تو اے ٹی ایم مشین مہارت سے کھول کر ایک  کارڈ نکال کر سی سی ٹی وی کیمرے  کو منہ چڑا رہا تھا۔ دوسری ویڈیو میں وہ پولیس والوں کو اشاروں میں بات کر رہا تھا اور اچانک دیوانہ سا بےضرر صلاح الدین طاقتور سے سوال پوچھنے کی جسارت کر گیا۔۔۔ اس کے بعد تیسری ویڈیو میں صلاح الدین کا بوڑھا باپ اس کی لاش وصول کر رہا تھا۔

’آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا؟‘ اس سوال کا جواب آنے سے پہلے صلاح الدین مر گیا اور اس کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اس کی موت کے بعد اس نظام کا منہ چڑا رہی ہیں۔ صلاح الدین کے پوچھے سوال کی بازگشت سوئے ضمیر جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بیٹے کی میت پر کھڑے صلاح الدین کے والد کے کانپتے ہونٹ اور ہاتھ اصلاحات کا الاپ کرنے والوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔

صلاح الدین کے والد کی آنکھوں میں بھی وہ ہی سوال ہے جو منیب اور مغیث کی ماں کی آنکھوں میں تھا۔ جو سرفراز شاہ کے بھائی کی آنکھوں میں تھا۔ وہ ہی سوال جو نقیب اللہ کے معصوم بچوں کی آنکھوں میں تھا۔ اور جانے کتنی آنکھوں میں یہ سوال تھے مگر ان سوالوں کو زبان نہ مل سکی۔ یہ سب سوال ارباب اختیار کے کانوں تک پہنچنے سے پہلے  جعلی پولیس مقابلوں، اور عقوبت خانوں میں دم توڑ گئے۔۔ لیکن صلاح الدین ایک نیم پاگل شخص نے ان ہزاروں سوالوں کو زبان دے دی۔

اب کئی دیوانے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ صلاح الدین کو کیوں مارا گیا اور اسے کس نے مارا؟

کیا یہ قتل پولیس اہلکار وں نے کیا؟ یا نظام میں موجود اس رعونت نے جس کے پاس لامحدود اختیارات ہیں؟ کیا ریاست مدینہ اور فلاحی ریاست کے اصولوں پر بننے والی ریاست میں کسی ادارے کے پاس لامحدود اختیارات ہو سکتے ہیں؟ کیا کچھ اداروں کے لامحدود اختیارات معاشرے میں عدل کی روح کے خلاف نہیں ہے؟ کیا ہر ملزم کے پاس اپنے خلاف لگائے الزامات کی صفائی پیش کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا صلاح الدین جیسے لوگوں کو جیتے جی کوئی وکیل نہیں مل سکتا؟ کیا تیمور جیسے نوجوانوں کو ناکے پر روکنے کے لیے سر میں گولی مارنا انصاف ہے؟ کیا ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ کو قتل کرنا کرنا انصاف ہے؟

مقتول صلاح الدین جاننا چاہ رہا تھا کہ اس کا قتل کس کے سر ہو گا۔ کسی ایک اہلکار کے یا نظام کے اس ناسور کے سر جو طاقت ور کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے جبکہ کمزور کو کچل دیتا ہے۔ طاقت کے نشے میں دھت اس ہاتھی کو کھلی چھوٹ کیوں ہے؟ یہ کیسا قانون ہے جس کے لمبے ہاتھ غریب کی گردن کے آر پار ہو جاتے ہیں اور طاقتور اسی قانون کی بغل میں بیٹھ کر جرائم کرتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ نظام کتنی بار اپنی بےحسی اور فرسودگی دکھا کہ ثابت کر چکا ہے کہ اس کھوکھلے نظام میں کوئی جان نہیں ۔۔ ہاتھ باندھے رحم کی اپیل کرتا کراچی کا سرفراز جب تڑپ تڑپ کر جان دے رہا تھا یہ نظام بےحس کھڑا تھا ۔۔۔ ہو سکتا ہے صلاح الدین نے بھی ہاتھ جوڑے ہوں اور رحم کی اپیل کی ہو۔ ہو سکتا ہے صلاح الدین نے اور سوال بھی کئے ہوں ۔۔ صلاح الدین نے یہ بھی پوچھا ہو کہ قانون نافذ کرنے والوں کے پاس یہ کیسا اختیار ہے وہ جب چاہیں کسی کو بھی اٹھا کر لے جائیں نہ گھر والوں کو بتایں نہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کریں چوری کے ملزم کو قتل کر دیں۔

ناکردہ گناہ قبول کروانے میں ماہر سمجھی جانے والی پاکستان کی پولیس اصلاحات سے اتنا ہی دور ہے جتنا کرمنل جسٹس سسٹم، اخلاقیات، انصاف اور شفافیت کے بنیادی اصولوں سے دور ہے۔ یہ نظام اس فرسودہ سوچ کا شریک کار رہا ہے جو سیاسی انتقام سے لے کر ذاتی عناد تک سارے معاملات میں پولیس کو استعمال کرتی رہی ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پولیس اصلاحات کا بارہا وعدہ اور ارادہ ہوا مگر یہ اصلاحات نہ ہو سکیں۔ راؤ انوار جیسے وی وی آئی پی پولیس والوں کو دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ اس پولیس کو جان بوجھ کر اتنا فرسودہ رکھا گیا ہے۔ یہ سوچی سمجھی سازش تھی کہ پولیس کبھی پیشہ ورانہ معیار پر نہ لائی گئی کیونکہ  پولیس کو پیشہ ورانہ مقاصد سے ذیادہ ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے پورے کرنے میں استعمال کرنا مقصود رہا۔ طاقتوروں کی گٹھ جوڑ میں غریب بےچارہ سب سے ذیادہ پستا رہا ہے۔ امیر کا اور طاقتور کا تو پولیس کچھ بگاڑ نہیں سکتی مگر جب کوئی بےبس اور لاچار ان کے ہتھے چڑھ جائے وہ ظلم کی ہر حد پار کر جاتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اس نظام کی بےحسی کتنی گہری اور سنگین ہے کہ بیٹوں کے ناحق قتل پر بوڑھی ماؤں کی سینہ کوبی اور جوان بیٹوں کی لاشیں وصول کرتے بوڑھے والد کے لرزیدہ ہاتھوں سے اس میں دراڑ نہیں آتی ۔۔  ظلم کی تپتی دھوپ میں سڑک کے بیچوں بیچ لاشے رکھے لواحقین آخر کب تک احتجاج کر سکتے ہیں؟ میت کو نہیں دفنائیں تو کیا کریں؟ چند گھنٹوں کے احتجاج کے بعد بالآخر میت اٹھا کے گھر لے جاتے ہیں۔

پولیس حراست میں مرنے والوں نے آخری سانسوں میں کس کو پکارا تھا، کس کو اپنے زخم دکھانے چاہے تھے، کس کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ تشدد سے چور روح نے اپنی  ماں کو کیا پیغام بھیجنا چاہا تھا۔ ان سینکڑوں مرنے والوں کا کرب اور بے بسی ان کے ساتھ ہی دفنا دی جاتی ہے۔ لیکن کیس کسی بھی تھانے میں کوئی ایسا ضمیر والا نہیں ہوتا جو تشدد اور ظلم کی انتہا ہونے سے پہلے ذرا پہلے سانس لیتے انسان کو زندہ رہنے کا حق دلوا سکے۔ نظام کے اس بدبودار سیلن زدہ ادارے کے پاس اتنی طاقت کیوں ہے کہ کوئی ذی شعور ان سے سوال کی جرات نہیں کرتا ۔۔۔ مگر صلاح الدین نے اپنے قاتل سے یہ سوال کر لیا کیونکہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اگر ہوتا تو وہ تھانیدار سے سوال کرتا؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ