سپین میں تقریباً چھ ہزار برس پرانی ’ٹکڑوں میں بٹی‘ لاشوں کی دریافت

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ان قدیم لوگوں کی ہڈیاں ان کی موت کے وقت یا اس کے آس پاس ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور ٹکڑوں میں تقسیم تھیں۔

سپین کے علاقے ڈومبیٹ میں موجود آثار قدیمہ (انواتو ایلیمنٹس)

آثار قدیمہ کے ماہرین کو ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً چھ ہزار برس قبل ہسپانیہ (سپین) میں پتھر سے بنے بڑے بڑے مقبروں میں دفنائے لوگوں کی موت کے بعد ان کے جسموں سے گوشت اتار لیا گیا اور لاشوں کے ٹکڑے کر دیے گئے۔

یہ ایک ایسی دریافت ہے جس سے اُس دور میں تدفین کے عجیب وغریب طریقوں پر روشنی پڑتی ہے۔

شمالی سپین میں لوس زومالیس اور لا لورا کے مقامات پر کئی دہائیوں قبل دریافت ہونے والی قبروں میں 24 سے زیادہ لوگوں کی باقیات پائی گئیں جو چار ہزار سال قبل مسیح میں زندگی بسر کر رہے تھے۔

حال ہی میں انٹرنیشنل جرنل آف اوسٹیو آرکیالوجی میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں ان باقیات کی حالت کے پیچھے موجود سماجی اور قدرتی عوامل کو سامنے رکھ کر قبروں سے جڑے تدفین کے طریقوں کا تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ان قدیم لوگوں کی ہڈیاں ان کی موت کے وقت یا اس کے آس پاس ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور ٹکڑوں میں تقسیم تھیں۔

سپین کی یونیورسٹی ڈی سلامانکا سے تعلق رکھنے والی اینجلیکا سانتا کروز سمیت سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ بڑے حجم کے مقبروں میں دفن ہڈیوں میں سے 70 سے 90 فیصد ٹوٹ چکی تھیں، جن میں بازو کی ہڈیاں بھی شامل ہیں جن میں ’تتلی کی شکل‘ کی دراڑیں تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہڈیوں پر پائے گئے زخم کے کچھ  نشانات اور فریکچرز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر باقیات کی کھدائی کے بعد پتھر کے اوزاروں کو استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے۔

ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان ہڈیوں کے تجزیے سے باقیات کو منتخب کر کے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سمیت قبر سے مواد نکالنے کی علامات بھی سامنے آئی ہیں۔

ماہرین آثار قدیمہ نے تحقیق میں لکھا ہے کہ ’یہ شواہد لاشوں کو ابتدائی طور پر دفن کرنے کے بعد دوسری مرتبہ ٹھکانے لگانے کے طریقوں سے متعلق ہوسکتے ہیں۔‘

اگرچہ قدیم لوگوں کی باقیات کی تدفین کے اس طریقے کے پیچھے درست محرک ابھی تک واضح نہیں ہے لیکن محققین کو شبہ ہے کہ یہ لاش کے گلنے سڑنے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے ’موت کے انتظام کے عمل‘ کا حصہ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ہڈیوں کو متبرک قرار دے کر ان کی عبادت کے لیے انہیں جمع کیا گیا ہو۔

محققین اس امکان کو بھی مسترد نہیں کر سکے کہ کچھ علامات ملی ہیں کہ مرنے کے بعد لاشوں کا گوشت کھایا گیا۔ ماضی کے مطالعات میں قدیم شمال مغربی یورپ میں اس عمل کے بہت سے واقعات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ تاہم ’ایسا دعویٰ کرنے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔‘

سائنس دانوں نے اس علاقے میں مقبروں سے ملنے ہڈیوں پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے تاکہ قدیم دور میں تدفین کے طریقوں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق