کشمیری اخباروں کے اداریے وٹامن اے کی افادیت بتانے پر مجبور

نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا انڈیا اور فری سپیچ کولیکٹو نامی دو تنظیموں کی طرف سے ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں اہم کشمیری اخباروں کے ادارتی موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صحافتی جبر کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق میڈیا کی یہ صورت حال بنیادی طور پر غیرجمہوری اور نقصان دہ ہے کیونکہ یہ حکام کی آواز کو سہارا دیتی ہے جب کہ جبر کے سامنے سچ بولنے والوں کو  مزید کمزور کرتی ہے۔(اے ایف پی)

حقوق انسانی کی دو تنظیموں نے بھارت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کشمیر میں ایک ماہ سے جاری پابندیوں کی آڑ میں میڈیا پر بھی قدغنیں لگائے بیٹھا ہے۔

نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا انڈیا اور فری سپیچ کولیکٹو نامی ان تنظیموں نے یہ رپورٹ ان صحافیوں کے ذریعے بنوائی ہے جنہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ روز گزارے اور 70 صحافیوں سمیت مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں اور شہریوں سے بات کی۔ ’نیوز بی ہائنڈ دا باربڈ وائر‘ کے عنوان سے اس رپورٹ نے کشمیر میں ’میڈیا کی صورت حال کی شدید تاریک تصویر پیش کی ہے جو انتہائی مشکل حالات میں بچاؤ کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

یہ تحقیق بھارت کی جانب سے  5 اگست کو کشمیری خودمختاری کے خاتمے کے بعد پیش آنے والی صورت حال کا احاطہ کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں کو حکومت مخالف رپورٹنگ کی وجہ سے نگرانی، غیرروایتی تحقیقات اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ اہم اکشاف بھی شامل ہے کہ کشمیر کے بڑے اخبارات نے حالیہ اداریوں میں بےضرر موضوعات پر بات کی ہے جیسے کہ وٹامن اے کے فوائد اور ’کیا ہمیں موسم گرما میں کیفین لینی چاہیے یا نہیں۔‘ (یہ صورت حال بذاتہ احتجاج کی ایک خاموش شکل بھی کہلائی جا سکتی ہے۔)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق میڈیا کی یہ صورت حال بنیادی طور پر غیرجمہوری اور نقصان دہ ہے کیونکہ یہ حکام کی آواز کو سہارا دیتی ہے جب کہ جبر کے سامنے سچ بولنے والوں کو  مزید کمزور کرتی ہے۔

بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک اہلکار نے رابطہ  کرنے پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جب تک وہ یہ رپورٹ دیکھ نہ لیں اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق انٹرنیٹ، موبائل اور لینڈ لائن فون تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وادی میں موجود سینکڑوں رپورٹر ذرائع ابلاغ کے لیے بنائے گئے سرکاری سہولت مرکز استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، جہاں موجود پانچ ڈیکس ٹاپ کمپیوٹرز میں سے دو خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔

دوسرے صحافیوں نے، جو سمجھتے ہیں کہ ان کمپیوٹرز کی نگرانی کی جا رہی ہے، کہا کہ انہوں نے یو ایس بی ڈیوائسز اور ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیوز اکٹھی کرلی ہیں جن پر زیادہ تر احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز جمع کی جاتی ہیں۔ وہ یہ ڈیٹا بھارت کے مختلف حصوں کا سفر کرنے والے دوستوں کے ذریعے دوسرے مقامات پر منتقل کرتے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صحافیوں کو اُس وقت کوئی خبر باہر بھیجنے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی مظاہرے میں موجود ہوتے ہیں۔23 اگست سے پہلے مظاہروں کی قیادت کرنے والے پمفلٹ تقسیم کرتے تھے جن میں خود مختاری کے خاتمے کے مخالف کشمیریوں کو سری نگر کے علاقے صورہ میں جمع ہونے کے لیے تاریخ، مقام اور وقت درج ہوتا تھا۔بعض صحافی ان مظاہروں میں شریک ہونے میں کامیاب ہو جاتے تھے لیکن ان میں سے کئی صحافیوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ روانگی کے بعد انہیں ناکوں پر روکا گیا، شناختی دستاویزات لے لی گئیں اور کچھ دیر کے لیے حراست میں رکھا گیا۔

اس سلسلے میں کشمیر کے اخباروں نے بھارت کی عدالت میں پٹیشنیں بھی دائر کی ہوئی ہیں۔ گذشتہ ہفتے نئی دہلی میں بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کوحکم دیا کہ وہ اخبار کشمیر ٹائمز کی مدیرکی دائر کردہ پٹیشن کا جواب دے۔ پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کشمیر میں چار اگست سے جاری مواصلاتی لاک ڈاؤن ختم کیا جائے۔ سری نگر میں صحافیوں نے بتایا کہ وہ خاردار تاروں کی بھول بھلیوں اور پولیس کی ناکہ بندی سے بچنے کے لیے موٹرسائیکلیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

متفرق ذرائع کے مطابق پانچ اگست سے اب تک کم از کم پانچ سو احتجاج اور پتھراؤ کے واقعات پیش آچکے ہیں جبکہ 4000 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا