بہتر ہوتے معاشی اشاریے: کیا پاکستان کے حالات بدلنے والے ہیں؟

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری خوش آئند ہے اور ایسا نہیں ہے کہ سٹے بازوں نے مصنوعی طریقے سے مارکیٹ بڑھائی ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔‘

11 جولائی 2023 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں ایک شخص کرنسی ایکسچینج کی دکان کے باہر موجود (عامر قریشی/ اے ایف پی)

اسلم (فرضی نام) ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔ وہ ایم اے اکنامکس ہیں اور ماہانہ 25 ہزار روپے کماتے ہیں، جس میں گھر کا خرچ چلانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

وہ کئی سالوں سے ملک کے خراب ہوتے حالات دیکھ کر پریشان ہیں اور اکثر اپنا آبائی گھر بیچ کر ملک چھوڑنے کا سوچتے رہتے ہیں، لیکن گذشتہ کچھ ماہ سے ملک میں آنے والی معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی امید بندھی ہے کہ شاید ملک صحیح راستے پر چل نکلا ہے اور آنے والے دنوں میں پاکستان معاشی ترقی کی مطلوبہ منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ 

ان کی نظر سے مختلف خبریں گزری ہیں۔ انہوں نے پڑھا کہ اکتوبر میں پاکستانی سٹاک مارکیٹ دنیا کی بہترین مارکیٹ کے طور پر سامنے آئی اور جولائی سے اکتوبر کے دورانیے میں ایف بی آر نے ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھے کیے ہیں۔

اس کے علاوہ دسمبر میں ابھی تک پاکستانی کپاس کی پیداوار آٹھ ملین بیلز رہی جو کہ پچھلے سال کی نسبت 74 فیصد زیادہ ہے۔ ڈالر ریٹ میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تقریباً 67 روپے تک کم ہو گئی ہیں۔ 

اسلم ان خبروں سے خوش ہیں لیکن پریشان بھی ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیا یہ مثبت خبریں جاری رہیں گی یا ماضی کی طرح حالات دوبارہ پلٹا کھا جائیں گے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں بھی اس طرح اچھی خبریں آتی رہیں اور ملک درست راستے پر رہا تو وہ اسی ملک میں اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کریں گے اور اگر معاشی سمت پھر خراب ہو گئی تو وہ کیریئر بنانے کے لیے پاکستان چھوڑ کر کسی اور ملک میں جانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری خوش آئند ہے۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ سٹے بازوں نے مصنوعی طریقے سے مارکیٹ بڑھائی ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ کمپنیوں نے اصل میں منافع کمایا ہے اس لیے ان کے شیئرز کی ویلیو بھی بڑھی ہے۔ مارکیٹ بڑھنے کے بعد تھوڑا سا گرنا نارمل ہے کیونکہ مارکیٹ میں کریکشن (Correction) آنا ہوتی ہے، لیکن یہ خبریں کب تک اچھی رہیں گی اس کا انحصار موجودہ پالیسیوں کے تسلسل پر ہے۔‘

بقول ظفر پراچہ: ’الیکشن ہونے والے ہیں اور نئی سیاسی حکومت کا معاشی منشور کیا ہو گا، اس بارے میں کچھ واضح نہیں ہے۔ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے معاشی منشور پر کھل کر بات نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ معاشی پالیسیوں کو جاری رکھنا ہی جیتنے والی پارٹی کا معاشی منشور ہو گا۔ اگر موجودہ پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو معاشی اشاریوں میں مزید بہتری آسکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان کی معاشی ترقی ڈالر ریٹ کے گرد گھومتی ہے۔ بہت سے اور بھی عوامل ہیں لیکن ڈالر کو مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ موجودہ حکومت نے نہ صرف منی ایکسچینجرز پر چیک اینڈ بیلنس مضبوط کیا ہے بلکہ بینکوں پر بھی چیک رکھا ہوا ہے۔ اس وقت ڈالر ریٹ میں اکھاڑ پچھاڑ کرنے کی صلاحیت صرف پاکستانی بینکوں کے پاس ہے۔ اب بینکوں کو منی ایکسچینجز بھی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مستقبل میں ڈالر کنٹرول میں رہتا ہے یا نہیں اس کا انحصار بینکوں پر نظر رکھنے پر ہے۔ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ ڈالر ریٹ کنٹرول میں ہی رہے گا۔‘

ظفر پراچہ کے مطابق: ’یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ملکی اثاثے بیچ کر ڈالرز ملک میں لانے کی منصوبہ بندی ہے۔ اس پر آئی ایم ایف کو بھی اعتراض ہے۔ ملک کے معاشی اشاریے صحیح معنوں میں اس وقت بہتر انداز میں آگے بڑھیں گے جب سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے شاہانہ اخراجات میں کمی آئے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ’سعودی آرامکو دنیا کی سب سے بڑی سنگل ہائیدرو کاربن نیٹ ورک کی مالک ہے۔ اس کمپنی کی جانب سے گیس اینڈ آئل پاکستان لمیٹڈ میں 100 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے 40 فیصد شیئرز خریدے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب آرامکو سرمایہ کاری کرتی ہے تو دنیا نوٹس لیتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اتیصلات موبائل سروس مہیا کرنے والی دنیا کی 18 ویں بڑی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی پاکستان میں 100 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے ٹیلی نار پاکستان لمیٹڈ خرید رہی ہے۔ شنگھائی الیکٹرک گروپ کمپنی پاور جنریشن اور الیکٹرک سامان کی تیاری میں ماہر ہے۔ اس کمپنی نے تھر کول پاور پراجیکٹ کو دو ارب ڈالرز پر کلوز کیا ہے، جس سے امید ہے کہ یہ پراجیکٹ پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کر سکتا ہے، جس سے سالانہ 500 ملین ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے۔‘

بقول فرخ سلیم: ’وافی انرجی سعودی عرب کی مشہور کمپنی ہے۔ اس کا کام فیول سٹیشنز کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اس کمپنی نے شیل پاکستان کے زیادہ تر شیئرز خرید لیے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا اعلان کیا ہے، جو کہ اس طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ معاشی استحکام آ رہا ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو استحکام کی گارنٹی دے سکیں۔‘

تاہم سابق وزیر ڈاکٹر خزانہ حفیظ پاشا اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’مجھے تو بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ شیل پاکستان چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت پریشان ہیں۔ وہ اپنا منافع ہی بیرون ملک نہیں بھجوا پا رہیں۔ چائنیز آئی پی پیز نے پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی لیکن ہم ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس وقت ایک ارب ڈالر چائنیز آئی پی پیز کو ادا کرنا ہیں۔ وہ ہم پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں لیکن ہم انہیں ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عالمی عدالتوں تک معاملہ پہنچ جائے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے معاملات ہیں جو پریشان کن ہیں۔‘

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خدشات شاید درست ہوں۔ وہ ماضی میں بھی ذکر کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو سب سے بڑی فکر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی کرنی چاہیے۔ پاکستان کو سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرض درکار ہے، کیونکہ سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالرز قرض کی ادائیگی کرنا اصل چیلنج ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت