قبائلی اضلاع کے فنڈ دیگر اضلاع منتقل کیے گئے: ہیومن رائٹس کمیشن

ایچ آر سی پی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ اور رواں مالی سالوں کے دوران قبائلی اضلاع کے لیے 99 ارب روپے مختص کیے گئے، جن میں سے محض 26 ارب ریلیز اور صرف 10 ارب روپے خرچ ہوئے۔

22 جنوری 2017 کی اس تصویر میں پاکستانی فوجی کرم قبائلی ضلع کے صدر مقام پاراچنار میں ایک چوکی پر پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے لیے مختص ترقیاتی بجٹ صوبے کے بندوبستی علاقوں میں خرچ کیا گیا، جس سے سابقہ قبائلی ایجنسیوں میں ترقیاتی کام متاثر ہوا۔

یہ انکشاف ایچ آر سی پی کی حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کیا گیا، جس کی تیاری کی غرض سے کمیشن کے فیکٹ فائنڈگ مشن نے مارچ میں قبائلی اضلاع کے دورے کیے اور ترقیاتی کام، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حال، اظہار رائے کی آزادی، خواتین کے حقوق اور بکا خیل کیمپ بنوں میں موجود عارضی بے گھر افراد سے ملاقاتیں کیں۔

رپورٹ میں قبائلی اضلاع کے ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ 25ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی حکومت نے نیشنل فنانس کمیشن کے مجموعی حجم کا تین فیصد قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جو وفا نہ ہو سکا۔

نیشنل فنانس کمیشن کے تحت فیڈرل ڈویزبل پول ( مختلف صوبوں سے ٹیکس کی مد میں وفاق کو ملنے والی ٹیکس کی آمدنی) کو تمام صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں قبائلی اضلاع کے لیے بھی ایک حصہ مختص ہے۔

ایچ آر سی پی رپورٹ کے مطابق: ’قبائلی اضلاع کو ملنے والے فنڈز میں یا تو بے قاعدگیاں ہوئیں یا فنڈز کو صوبے کے دیگر بندوبستی اضلاع میں متنقل کیا گیا۔ ملالہ فنڈ کے تحت بعض منصوبوں کا اسلام آباد میں اعلان کیا گیا تھا لیکن مشن کو بتایا گیا ہے کہ ابھی تک وہ منصوبے نہیں دیکھے گئے۔‘

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 اور 2023 کے لیے قبائلی اضلاع کے لیے 99  ارب روپے مختص کیے گئے، جن میں سے محض 26 ارب ریلیز ہوئے جب کہ صرف 10 ارب روپے خرچ ہوئے۔

امن و امان کی صورت حال

ایچ آر سی پی مشن نے مشاہداتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ قبائلی اضلاع میں امن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے عوام کا حکومت اور اداروں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے کیوں کہ وہ عوام کو سکیورٹی دینے میں ناکام رہے ہیں۔

کمشنر بنوں ڈویژن نے مشن کو بتایا کہ ڈویژن میں سکیورٹی کے حالات گھمبیر اور شمالی وزیرستان میں حالات بدتر ہو چکے ہیں، جو شدت پسندی کے واقعات کا گڑھ بن گیا ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔

اسی رپورٹ میں صوبائی سیکریٹری داخلہ کے حوالے سے لکھا گیا: ’افغانستان میں افغان طالبان کے آنے کے بعد اور امریکہ کا افغانستان سے نکلنے کے بعد بہت سارے تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے پاکستان آکر اپنے سلیپر سیلز دوبارہ ایکٹیو کیے۔‘

اسی طرح سیکریٹری داخلہ کے مطابق 2022 میں ریاست کی جانب سے سوات سے شدت پسندوں کا خاتمہ کر دیا گیا، تاہم ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور لکی مروت میں اب بھی مسائل موجود ہیں۔

سیکرٹری داخلہ نے مشن کو مزید بتایا کہ انسداد دہشت گردی کے لیے ایک ٹیکنالوجی بیسڈ نظام کو صوبائی حکومت کی جانب سے متعارف کرایا گیا، جو نادرا سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ اشتراک میں کام کرتا ہے۔

اسی طرح رپورٹ میں شدت پسندوں کی جانب سے بھتہ خوری میں بھی اضافے کا ذکر موجود ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مبینہ طور پر صوبے کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اور ان کے بھائی نے اپنی حفاظت کے پیش نظر بھتہ ادا کیا، تاہم سابق وزیر اعلیٰ اس کی تردید کرتے ہیں۔

لینڈ ریکارڈ اور خواتین

رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ قبائلی اضلاع میں لینڈ ریکارڈ کو ترتیب دیے جانے کے دوران خواتین شہریوں کو جائداد سے محروم کیا گیا ہے۔

تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی خواتین نے وراثت میں حصے کے حصول کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں 2019 کا وومن پراپرٹی رائٹ ایکٹ خواتین کی جانب سے موروثی جائداد کے تنازعات جلدی حل کیے جاتے ہیں۔ 

اسی طرح خواتین کے شیلٹر کے حوالے سے بھی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قبائلی اضلاع میں کوئی دارالامان کی سہولت موجود نہیں ہے اور تشدد یا دوسرے مسائل سے دوچار خواتین کو پشاور لایا جاتا ہے۔ 

پولیس ریفارمز

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشن کے ساتھ بات کرنے کے دوران زیادہ سرکاری اور پولیس اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ صوبائی پولیس کی استطاعت بڑھانے کے اقدامات اٹھائے گئے جن سے خاصہ دار فورس بھی مستفید ہوئی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی مقصد کے لیے لیویز اور خاصہ دار کے لیے ایک سپیشل ٹریننگ سکول بھی قائم کیا گیا ہے جس میں ٹریننگ مواد پشتو زبان میں تیار کیا گیا ہے۔ ادارے میں اسلحہ چلانے کے تربیت بہت بہتر ہے لیکن دیگر قوانین اور دفتری معاملات میں کمزوریاں موجود ہیں۔ 

ایک اور مثبت کام رپورٹ کے مطابق یہ ہوا ہے کہ ریکروٹمنٹ کے دوران 285 خواتین پولیس اہلکار بھرتی کی گئیں جبکہ اس سے قبل محض 25 خواتین بھرتی ہو پائی تھیں۔

تاہم مشن کو بعض ذرائع نے بتایا ہے کہ ضلع خیبر میں پولیس کو یونیفارم بھی نہیں دیا جاتا جو انہیں اپنی جیب سے خریدنا پڑتا ہے، جب کہ 68 فیصد اہلکاروں کے پاس ساتھی بندوقیں ہیں اور مجموعی طور پر خیبر میں 3500 اہلکاروں کے لیے صرف 120 بلٹ پروف جیکٹس دستیاب ہیں۔

عدلیہ

رپورٹ کے مطابق قبائلی اضلاع کے عدالتی نظام میں بعض مثبت تبدیلیاں دیکھی گئیں اور شمالی و جنوبی وزیرستان اور اورکزئی کے علاوہ باقی اضلاع کے حدود میں عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اراکین نے مشن کو بتایا ہے کہ قانونی آگاہی، اور مدد دینے کے حوالے سے قبائلی اضلاع میں مثبت تبدیلیاں آئیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان