محمد ادریس جن کے لیے کرکٹ ہی سب کچھ تھی

کرکٹ میچوں کی اردو زبان میں کمنٹری کرنے والے محمد ادریس کا اپنا ہی ایک انداز تھا۔ وہ جب کمنٹری کرتے تو سننے والے خود کو میدان میں موجود محسوس کرتے۔

کرکٹ کمنٹیٹر محمد ادریس (بائیں) ایک میچ کے دوران کمینٹری کرتے ہوئے (عبدالرشید شکور)

دلچسپ انداز بیاں اور غیر روایتی کرکٹ کمنٹری سننے والوں کے دلوں میں گھر کرنے والے کمنٹیٹر محمد ادریس 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ ہم سب کے لیے ادریس بھائی تھے۔

ان کی وفات سے پاکستان میں اردو کرکٹ کمنٹری کے سنہری دور کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

یہ تحریر آپ مصنف کی زبان میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

ابھی چند روز ہوئے میں امریکہ سے آئے ہوئے مشہور کرکٹ کمنٹیٹر حسن جلیل کا انٹرویو کر رہا تھا تو ادریس صاحب کے دلچسپ انداز بیاں کا بھی ذکر آیا۔ حسن جلیل سری لنکا میں ان کی کرکٹ کمنٹری کا واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے: ’ادریس صاحب کمنٹری کر رہے تھے۔ منظور الہٰی نے اس دوران  زور دار چھکا مارا۔ ادریس صاحب کی عادت تھی کہ جب بھی چوکا چھکا لگتا وہ جوش میں آکر اپنی کرسی سے اٹھ جایا کرتے تھے۔ چونکہ وہ سرخ سفید رنگت کے مالک تھے لہذا ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا۔ اُس موقع پر بھی وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے یہ منظور الہی ہیں ان کا تعلق ساہیوال سے ہے اور ان کے چوکے چھکوں میں ساہیوال کی گائے بھینسوں کے دودھ کی طاقت ہے۔‘

حسن جلیل کہنے لگے ’ادریس صاحب کا یہ جملہ سننا تھا کہ کمنٹری باکس میں موجود ہر شخص ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گیا۔ ہمارے سری لنکن ساتھیوں نے جب ہماری یہ حالت دیکھی تو وہ ہم سے پوچھنے لگے کہ ایسی کیا بات ہو گئی کہ آپ سے ہنسی نہیں رک رہی۔ جب انہیں ادریس صاحب کے اس فقرے کے بارے میں بتایا گیا تو وہ بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔‘

محمد ادریس نے جس دور میں کمنٹری کی اس میں عمر قریشی، چشتی مجاہد اور افتخار احمد انگریزی حلقے میں مضبوط گرفت رکھے ہوئے تھے جبکہ اردو کمنٹری میں منیر حسین اور حسن جلیل جیسے مستند کمنٹیٹرز موجود تھے لیکن اس کے باوجود محمد ادریس نے  غیرروایتی اور عوامی انداز کے سبب اپنی الگ پہچان کرائی۔

محمد ادریس نے اردو کمنٹری کو روایتی بندشوں سے آزاد کر کے ایک ایسا منفرد انداز بخشا کہ جب بھی وہ کمنٹری کر رہے ہوتے سننے والے ریڈیو سیٹ سے ہٹنے کا تصور نہیں کرتے تھے کیونکہ اس انداز میں انہیں بہترین تفریح ملتی تھی اور وہ یہی سمجھتے تھے کہ وہ اسٹیڈیم میں بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔

ادریس صاحب  کی لفظوں پر گرفت کمال کی تھی۔ وہ موقع محل دیکھ کر ایسی بات کہہ جاتے کہ سننے والا اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان فیصل آباد کے میچ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب وسیم اکرم اور سلیم یوسف نے ویسٹ انڈین بولرز کے سامنے ہاتھ کھولے اور چوکے لگانا شروع کیے تو کپتان ویوین رچرڈز نے سلپ اور گلی پوزیشن سے اپنے فیلڈرز ہٹا دیے اور انہیں باؤنڈری پر بھیج دیا جس پر ادریس صاحب کی آواز ہوا کے دوش پر گونجی ’رچرڈز کہاں گئیں تمہاری سلپ اور گلیاں۔‘

انہوں نے یہ اتنے زور سے کہا کہ ان کی آواز مائیک کے علاوہ بھی ہٹ کر دور دور تک سنی گئی۔

اسی طرح آسٹریلیا کے دورے میں جب سعید انور نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں سنچری بنائی تو ادریس صاحب کہنے لگے ’آسٹریلیا والے بھی آج یہ سوچ رہے ہوں گے کہ عمران خان اپنے ساتھ یہ کیا چیز لے آئے ہیں۔‘

کرکٹ کمنٹیٹر طارق سعید نے بحیثیت کمنٹیٹر جب 2003 میں ملتان میں اپنا پہلا ٹیسٹ کیا تو ادریس صاحب ان کے ساتھ کمنٹری باکس میں موجود تھے۔ اتفاق سے جب 2018 میں ادریس صاحب نے آخری مرتبہ ابوظہبی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں کمنٹری کی تو طارق سعید ان کے ساتھ وہاں بھی موجود تھے۔

طارق سعید بتاتے ہیں کہ ادریس صاحب نے ہمیشہ اپنے جونیئرز کی حوصلہ افزائی کی اور ان کی قدم قدم پر رہنمائی کی۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ کمنٹیٹر بڑے تھے یا انسان۔

طارق سعید ادریس صاحب کی بذلہ سنجی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں: ’یہ انضمام الحق کا آخری ٹیسٹ میچ تھا۔ میں ادریس صاحب کے ساتھ کمنٹری کے لیے  قذافی اسٹیڈیم جا رہا تھا کہ باہر ہمیں ایک شخص ملا جو کہنے لگا کہ وہ صرف انضمام الحق کی بیٹنگ دیکھنے آیا ہے۔ اس وقت انضمام الحق کی فارم بہت خراب تھی۔ ادریس صاحب نے ازراہ تفنن اس شخص سے کہا جلدی جاؤ انضمام الحق کو نیٹ میں بیٹنگ کرتے دیکھ لو بعد میں ان کی بیٹنگ دیکھنی مشکل ہو گی۔‘

ادریس صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ وہ ابتدائی طور پر ریڈیو پاکستان پشاور سے وابستہ ہوئے پھر ان کا تبادلہ کراچی کر دیا گیا اور وہ آؤٹ سائیڈ براڈ کاسٹ پروڈیوسر سے کرکٹ کمنٹیٹر بن گئے لیکن یہ سب کچھ آناً فاناً نہیں ہوا بلکہ انہیں اس کے لیے تگ ودو کرنا پڑی۔

 1978میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کراچی ٹیسٹ میں انہوں نے پہلی مرتبہ کسی ٹیسٹ میچ کی کمنٹری کی۔ خود وہ بتاتے تھے کہ اس زمانے میں ریڈیو پر اردو کمنٹری آسان نہ تھی کیونکہ بیوروکریسی صرف اور صرف انگریزی کمنٹری کو سننا چاہتی تھی۔ تاہم منیر حسین کی کوششوں کے نتیجے میں اردو کمنٹری نے بھی اپنی اہمیت منوائی۔

یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ارباب اختیار کو بھی اردو کمنٹری کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔

1987 کے  بنگلور ٹیسٹ میں پاکستان کی تاریخی جیت کا آنکھوں دیکھا احوال بھی ادریس صاحب نے بیان کیا تھا۔ اس کا پس منظر بھی دلچسپ ہے۔ آخری چند اوورز کی کمنٹری انگریزی میں ریحان نواز کو کرنا تھی لیکن پروڈیوسر سلمان المعظم نے میچ کی دلچسپ صورت حال دیکھ کر ادریس صاحب سے ہی اردو میں کمنٹری جاری رکھنے کو کہا۔

ادریس صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں بے شمار میچوں کا آنکھوں دیکھا احوال  بیان کیا لیکن وہ پاکستان اور انگلینڈ کے فیصل آباد ٹیسٹ میچ کو کبھی نہیں بھولتے جس میں انہوں نے شکور رانا اور مائیک گیٹنگ کے تنازعے کو بیان کیا تھا۔

 ادریس صاحب ہمدرد پاکستان کے فیصل آباد میں ڈسٹری بیوٹر بھی تھے۔ حکیم محمد سعید صاحب سے ان کا دیرینہ تعلق رہا۔ حکیم محمد سعید بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں حکیمی ادویات کا پتہ ہوتا تھا اسی لیے جب بھی کمنٹری باکس میں کوئی بھی شخص نزلہ کھانسی کی شکایت کرتا وہ فوراً اپنے ڈرائیور کے ذریعے جوشاندہ اور دیگر دوائیں منگوا کر انہیں دے دیا کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصل آباد میں جب بھی کرکٹ میچ ہوتا ان کا گھر ملکی اور غیر ملکی کمنٹیٹرز اور دیگر احباب کی دعوتوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ غیر ملکی مہمان ہمیشہ ان کی مہمان نوازی کے معترف رہے۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم کے میڈیا سینٹر کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔

ذاتی طور پر مجھے ادریس صاحب کے ساتھ متعدد غیر ملکی ٹورز کا موقع ملا۔ میرے صحافتی کیریئر کا پہلا ٹور سری لنکا کا تھا، جہاں  ادیس صاحب کی محبت اور درخواست پر میں نے سنگر ٹرافی کے میچوں کی اسکورنگ بھی کی۔ اس کے علاوہ 1987 میں انگلینڈ کے خلاف کراچی کے ون ڈے میں بھی میں ان کے ساتھ اسکورر تھا۔ دونوں مرتبہ مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ اسکورنگ آسان نہیں کیونکہ وہ ہر وقت نہ صرف خود متحرک رہتے تھے بلکہ اسکورر کو بھی چوکس رکھتے تھے۔ کھیل کے آخری لمحات میں ان کا جوش و خروش بڑھ جاتا اور وہ کہتے تھے کہ اب اوورز نہیں بلکہ گیندوں کا حساب کتاب رہ گیا ہے اور آپ مجھے اب جیت کے لیے  درکار رنز گیندوں کے حساب سے بتاتے رہیے۔

گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے اگرچہ وہ کرکٹ کمنٹری نہیں کر پا رہے تھے لیکن کھیل سے ان کے جنون میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور وہ ریڈیو پر کرکٹ کے پروگراموں میں ضرور شریک ہوا کرتے تھے۔آخری دنوں میں وہ اپنے کمرے تک محدود رہ گئے تھے لیکن  ٹی وی پر کرکٹ میچز ضرور دیکھتے تھے۔

 کرکٹ ہی ان کے لیے سب کچھ تھی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ