اردو میں کمنٹری تو نہ کریں

کرکٹ کا بخار جب عروج پر ہوتا تھا  تو ریڈیو کے ساتھ ساتھ چھوٹا بڑا ٹرانزسٹر‘ کانوں پر لگائے راہ گیر گزر رہے ہوتے تو کرکٹ کے شیدائی انہیں روک کر بس یہی ضرور دریافت کرتے ’سکور کیا ہوا؟‘

(اے ایف پی)

کیا زمانہ تھا جناب ‘ جب اردو کرکٹ کمنٹری بھی سننے کے قابل ہوتی۔ منیر حسین، حسن جلیل اور محمد ادریس‘  ریڈیو پر کھیل کے اتار چڑھاؤ کو اس قدر سنسنی خیز انداز میں بیان کرتے کہ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگتیں۔

کھیل کے دلچسپ لمحات میں کمنٹری کا اپنا رنگ سننے کو ملتا۔ مرحوم منیر حسین کی کمنٹری کی خاص بات یہ رہتی کہ وہ ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک جملے کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے، مثلاً قاسم عمر کے بلے سے نکلے ہوئے شاٹ پر ان کا یہ تبصرہ کہ اگر قاسم عمر ریت میں بھی یہ شاٹ مارتے تو چوکا ہی ہوتا‘ آج تک ذہن سے چپکا ہوا ہے  اور پھر جناب حسن جلیل کی کمنٹری کا کیا کہنا۔ موسم کا حال، تماشائیوں کے سٹینڈ میں کیا ہورہا ہے، کہاں سکور بورڈ ہے، کس ٹیم کے تماشائی زیادہ ہیں اور بالر جب گیند کرانے کے بھاگنا شروع کرتا تو ایسا ماحول بنادیتے کہ لگتا یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہی ہو رہا ہے۔

جبکہ محمد ادریس تو مزے لے لے  بلکہ چسکیاں لیتے ہوئے کھیل کا رواں تبصرہ سناتے۔   ہر ایک گیند کا نقشہ ایسا کھینچا جاتا کہ راہ چلتے بھی رک کر اس سحر میں کھو سا جاتا۔ کون سی فیلڈنگ پوزیشن کیا ہوتی ہے‘  اس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتا۔ سلی مڈآن، گلی اورڈیپ اسکوائر لیگ غرض ہر فیلڈ کے بارے میں اسی ریڈیو اردو کمنٹری کی وجہ سے ہم بہت کم عمری میں واقف ہوگئے تھے۔

کرکٹ کا بخار جب عروج پر ہوتا تھا  تو ریڈیو کے ساتھ ساتھ چھوٹا بڑا ٹرانزسٹر‘ کانوں پر لگائے راہ گیر گزر رہے ہوتے تو کرکٹ کے شیدائی انہیں روک کر بس یہی ضرور دریافت کرتے ’سکور کیا ہوا؟‘ اور وہ موصوف سکور بتانے کے بعد آندھی طوفان کی طرح اپنی راہ اس لیے بھی پکڑ لیتے کہ کہیں مزید سوالوں کی بوچھاڑ نہ ہوجائے کہ کون آؤٹ ہوا‘ کتنے رنز چاہیے‘  فلاں نے کیا سکور کیا اور اگر کوئی دل جلا ہوتا تو سکورسننے کے بعد کھلاڑیوں کے رشتے داروں کو یاد کرکے دل کی بھڑاس نکال لیتا۔

بہترین اردو کمنٹری صرف ریڈیو پر ہی نہیں ٹی وی سے بھی نشر ہوتی اور عام طور پر ہر پانچ اوورز کے بعد اردو یا  انگریزی کمنٹری کا دور چلتا۔ انگریزی کے لیے بھلا کون بھول سکتا ہے جمشید مارکر‘  عمر قریشی، افتخار احمد، چشتی مجاہد، ریحان نواز اور سلیم الطاف کو۔

1987-88میں جب عمران خان کی قیادت میں ٹیم نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا تو اُ ن دنوں آج کی طرح ویسٹ انڈیز سے میچز دکھانے کا رواج تو تھا نہیں۔ اسی لیے کھیل کی تازہ بہ تازہ صورتحال جاننے کے اکلوتا سہارہ ریڈیو ہی تھا۔ منیر حسین سمیت دیگر کمنٹیٹر زکھیل کی صورت حال پر رواں تبصرہ پیش کرتے اور کم و بیش رات کے دو ڈھائی بجے میچ ختم ہوتا جب تک کرکٹ دیوانے‘ سر سے سر جوڑے بیٹھ کر کمنٹری سے مستفید ہوتے رہتے۔ 

ٹیسٹ میچوں میں کھانے یا چائے کا وقفہ ہوتا تو اُس زمانے میں ریڈیو کے پروڈیوسرز سید محمد نقی، عظیم سرور اور پھر بعد میں  اسلم بلوچ، سامعین کو ریڈیو سیٹ سے جوڑے رکھنے کے لیے کرکٹ کے دلچسپ واقعات اور ریکارڈز پر کوئی نہ کوئی مختصر نوعیت کاپروگرام نشر کرتے۔بعض اوقات وقفے میں ریڈیو کا سب سے زیادہ معلوماتی اور مقبول سیگمنٹ ’یہ بچہ کس کا ہے‘ بھی نشر ہوتا۔ جس کا مقصد یہ ہوتا کہ گم شدہ بچوں کی تلاش کا مرحلہ آسان کیا جائے۔ صرف کرکٹ کمنٹری ہی نہیں جناب ہاکی کے مقابلوں میں ایس ایم نقی اور ذاکر حسین سید کی اردو کمنٹری دلوں کے تار چھیڑ دیتی۔

سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کی آمد ہوئی تو اردو کمنٹری کا وجود دھیرے دھیرے غائب ہونے لگا‘ جن ممالک سے میچز نشر نہیں ہوسکتے تھے اب وہاں سے  بصری صلاحیتوں کی بنا پر یہ مشکل بھی آسان ہوگئی۔نشریاتی حقوق  اور سازو سامان ’گوروں‘ کے پاس آتے گئے جبھی کمنٹری ٹیموں میں بھی واضح تبدیلیاں ہوئیں۔ رچی بینیو‘   ٹونی گریگ‘ ایان چیپل‘ بل لاری‘ مائیکل ہولڈنگ‘ ٹونی کوزئیر ’ہاؤس ہولڈ نیم‘ بن گئے اور بھلا کون بھول سکتا ہے ہنری بلوفلڈ کی شارجہ میں انگریزی زبان میں کی گئی کمنٹری کو جس میں وہ خواتین کے جھمکوں کے دیوانے ہوگئے تھے۔

وقت تیزی سے بیتا تو ان کمنٹیٹرز کی جگہ سابق کھلاڑی لیتے گئے۔ بہرحال ان میں سے کئی تو اب تک انگلش کمنٹری سے وابستہ ہیں۔ اِدھر ہمارے یہاں وہ دور بھی آیا ‘ جب اردو کمنٹری کو غیر اعلانیہ طور پر ختم کرہی دیا گیا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت میں اب بھی ہندی زبان میں کھیل کا حال بیان کیا جاتا ہے بلکہ ایک ٹی وی چینل تو مخصوص ہندی کمنٹری کے لیے ہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اب ریڈیو پر شارٹ ویو کے بجائے مختلف ایم ایف چینلز پر اردو کمنٹری ہورہی ہے۔ ایف ایم تو ہر سستے ترین سیل فون  موجود ہے۔کرکٹ  کا جب ماحول عروج پر ہوتا ہے تو کبھی گاڑی میں تو کبھی پیدل چلتے ہوئے  ہینڈ فری لگاکر میچ کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن اچھی خاصی اردو کمنٹری کے درمیان  اچانک انگریزی میں گیند کا حال بیان شروع ہو جاتا ہے۔

اردو اور انگریزی کا یہ حسین تڑکا، سامعین کو عجیب سی ذہنی کیفیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ آدھا تیتر اور آدھا بیڑ کسی صورت کسی کو بھی ہضم نہیں ہورہا۔ اور پھر ان سب کے درمیان کمنٹری بھی کمرشلائزڈ ہوچکی ہے۔ ا س کا اندازہ یوں لگائیں کہ اب میچ کی کی ہر گیند کسی نہ کسی طرح سے  سپانسر ہوچکی ہے۔ چھکا، چوکے اور آؤٹ تک بک گئے ہیں۔ حال ہی میں جب پی ایس ایل میچز سے پہلے یہ نوید سنائی گئی کہ ٹی وی پر میچ کے دوران اردو کمنٹری بھی نشر ہوگی تو دل خوش ہوگیا  چلو اس بہانے کچھ پرانے کمنٹیٹرز کا خوبصورت انداز بیان پھر سے سننے کو ملے گا لیکن سارے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑگئی جب سابق کھلاڑی ہی گلابی اردو بولتے ہوئے سنائی دیے اور یہ سلسلہ بلکہ ستم تو حالیہ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے دوران بھی سہنا پڑ رہا ہے۔

ایک سابق اوپنر تو ایسے پھنس پھنس کر مشکل سے اردو بول رہے ہوتے ہیں جیسے وہ کم از کم اس دیس کے باسی نہ ہو‘ یا پھر انہوں نے کبھی اردو بولی ہی نہ ہو۔ ایک موصوف عرصہ دراز سے اردو کمنٹری کررہے ہیں لیکن آج تک خود کا انداز متعارف کرانے کی بجائے حسن جلیل کی ہی کاپی مارنے میں مگن رہتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو دل یہ چاہتا ہے کہ اردو میں کھیل کا حال ہی نہ بیان کیا جائے تاکہ جو‘ اس کی جو چاشنی اور شائستگی ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے‘ وہ کم از کم مسخ تو نہ ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ