کیا پیپلز پارٹی کی بنیاد پیرس میں رکھی گئی تھی؟

عام طور پر مشہور ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد نومبر دسمبر1967 میں رکھی گئی، لیکن درحقیقت اس پارٹی کی داغ بیل ایک سال قبل پیرس میں ڈالی جا چکی تھی۔

جے اے رحیم نے پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا منشور بھی لکھا تھا۔ اس میں انہیں ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے اور ذوالفقار علی بھٹو کی معاونت حاصل تھی(تصویر: ڈاکٹر غلام قاضی)

پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سب سے پرانی جماعتوں میں سے ایک مانا جاتا ہے اور اس جماعت کی تشکیل کے حوالے سے اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں رکھی گئی تھی۔

اس رپورٹ میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد نومبر دسمبر 1967 میں رکھی گئی یا پی پی پی کی بنیاد ایک سال قبل پیرس میں ایک بنگالی دانشور پہلے ہی رکھ چکے تھے؟

حکومت پاکستان نے 1957 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے جو وفد بھیجا تھا اس میں اس وقت کراچی کے ایک نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔

ستمبر 1957 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے امن عالم اور جارحیت کے موضوع پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی چھٹی کمیٹی اجلاس کے دوران تقریر کی تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ 29 سالہ نوجوان صرف دس سال بعد ایسا مقام حاصل کر لے گا کہ اس کا نام آنے والی نصف صدی کے بعد بھی پاکستانی سیاست میں گونجتا رہے گا۔

صرف چار مہینے بعد ذوالفقار علی بھٹو جینیوا میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے جنہیں صدر پاکستان اسکندر مرزا نے اس مشن کے لیے منتخب کیا تھا۔

مارچ 1958 میں جینیوا میں ہونے والی اس کانفرنس کا موضوع سمندری قوانین تھا۔ بھٹو نے اس کانفرنس کے دوران پانچ تقریریں کیں اور شاید یہی وہ تقاریر تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے جنرل ایوب خان کو متاثر کیا۔

جب اکتوبر 1958 میں جب اسکندر مرزا نے پاکستان میں پہلا مارشل لگایا تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کابینہ میں بطور وزیرِ تجارت شامل کر لیا۔ اس کے 20 دن بعد جب جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر کے اپنی نئی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں بھی بھٹو شامل تھے۔

اس کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان، لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم شیخ، منظور قادر، ایف ایم خان، حبیب الرحمٰنم ابوالقاسم، حفیظ الرحمٰن، محمد شعیب اور مولوی محمد ابراہیم شامل تھے۔

تقریباً پانچ سال بعد 23 جنوری 1963 کو سابق وزیراعظم پاکستان اور وزیرخارجہ محمد علی بوگرہ کی وفات کے بعد اگلے دن ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا وزیرخارجہ مقرر کیا گیا۔

مئی 1964 میں کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ کے دورہ پاکستان کو ممکن بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار اہم رہا۔ اس کے علاوہ بھی عالمی سطح پر پاکستان کا موقف اجاگر کرنے پر انہیں 21 جون 1964 کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ’ہلال پاکستان‘ کے اعزاز سے نوازا۔

20 نومبر 1965 کو وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا وہ مشہور فقرہ ادا کیا جو آج تک دہرایا جاتا ہے، ’اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان بھی ایٹم بم بنائے گا۔۔۔ ضرورت پڑی تو ہم گھاس کھا کر گزارا کر لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔‘

معاہدہ تاشقند اور بھٹو ایوب اختلافات

10 جنوری 1966 کو جب سویت یونین کی ثالثی سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تاشقند معاہدہ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو بھی اس موقعے پر پاکستانی وفد کا حصہ تھے۔

اسی سال 12 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر جائے گا۔ اس سے قبل وہ نو فروری کو کہہ چکے تھے کہ معاہدہ تاشقند کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہے اور کشمیر کی آزادی کا وعدہ پورا کیا جائے گا۔

معاہدہ تاشقند کے دوران پاکستان اور انڈیا نے آپس کے اختلافات کو پر امن طور پر حل کرنے کا اعلان کیا لیکن اسی معاہدے نے ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات کی بنیاد رکھ دی۔ بھٹو سمجھتے تھے کہ پاکستان نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر کے کشمیر کو انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا۔

اس معاہدے کے چند ہفتے بعد 29 جنوری کو ایوب خان کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کے ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں اور کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔

لیکن پھر 17 جون 1966 کو حکومت نے اعلان کیا کہ صدر پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو خرابیِ صحت کی بنیاد پر لمبی رخصت پر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ان اپنی وزارت سے بے ضابطہ استعفیٰ تھا۔

جبکہ حکومت نے ان کی برخاستگی کا اعلان آٹھ جولائی کو کیا جس میں کہا گیا کہ بھٹو 31 اگست کو اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گے۔

پھر 22 جون کو بھٹو راولپنڈی کے کراچی کے لیے روانہ ہوئے لیکن انہوں نے یہ سفر بذریعہ ٹرین کرنے کا فیصلہ کیا اور لاہور، لاڑکانہ سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے۔

راستے میں آنے والے شہروں میں عوام کی بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے موجود رہی۔ شاید اسی استقبال کو دیکھتے ہوئے بھٹو نے سیاسی میدان میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔

پیپلز پارٹی کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے سٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب ’ذلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں اگست 1966 میں ذوالفقار علی بھٹو جب پیرس سے لندن پہنچے تو انہوں نے اولڈ کونوے ہال میں پاکستانی طلبہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’تاثر یہی ہے کہ میری صحت اچھی نہیں ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری صحت جتنی بھی خراب ہو یہ انڈیا کے لیے کافی ہے۔‘

لاہور کے فورمین کرسچن کالج میں بطور استاد پڑھانے والے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اساس پر پی ایچ ڈی کرنے والے فلپ ایڈورڈ جونز اپنی تصنیف ’دی پاکستان پیپلز پارٹی: رائز ٹو پاور‘ میں لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کابینہ سے نکلنے کے بعد کونسل مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت میں دلچسپی رکھتے تھے تاہم وہ کسی بھی جماعت میں شامل نہ ہوئے لیکن ترقی پسند جماعت نیپ کے ساتھ ان کی بات کافی آگے بڑھ چکی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد

1966 میں سامنے آنے والے ان اختلافات کو عروج اس وقت ملا جب 30 نومبر 1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا گیا۔

30 نومبر اور یکم دسمبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ چار کے گلبرگ میں ہونے والے ایک اجلاس میں نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس جماعت کو پاکستان پیپلز پارٹی کا نام دیا گیا۔

اسی اجلاس میں پارٹی کے چار رہنما اصول بھی منظور کیے گئے جو کچھ یوں تھے:

  1. اسلام ہمارا دین ہے۔
  2. جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
  3. سوشلزم ہماری معیشت ہے۔
  4. طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔

اس اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ جو شخصیات شریک تھیں ان میں رسول بخش تالپور، حنیف رامے، شیخ محمد رشید، حیات خان شیرپاؤ، عبدالوحید کٹپر، معراج محمد خان، حق نواز گنڈاپور،  ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، بیگم شاہین رامے، ملک حامد سرفراز، اسلم کورداسپوری شامل تھے۔

اسی اجلاس کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی چیئرمین اور جے اے رحیم کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی بنیاد پیرس میں؟

تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور پیپلز پارٹی کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے سٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب ’ذلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے دلچسپ انکشاف کرتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے ’پرزن سیل ہولوگراف‘ یا جیل میں لکھے گئے نوٹس کی بنیاد پر وولپرٹ لکھتے ہیں کہ 1966 میں بھٹو بیروت سے پہلے جینیوا اور پیرس پہنچے۔ جہاں ان کی ملاقات جلال الدین عبدالرحیم (جے اے رحیم) سے ہوئی۔

جلال الدین عبدالرحیم ایک کمیونسٹ دانشور تھے جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی تھے۔

سٹینلی وولپرٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو جے اے رحیم کی فہم فراست کے قائل تھے اور انہوں نے اس بارے میں لکھا کہ ’ان کی ذہانت، ان کی فراست اور ان کا علم، خارجہ امور پر ان کی گرفت، ان کے لکھنے کی مہارت، ان کی سیاسی سمجھ بوجھ اور دیگر خصوصیات، وہ سوشلزم پر یقین رکھتے ہیں اور جدیدیت پر بھی۔‘

بھٹو نے مزید لکھا کہ ’دراصل انہوں نے اور میں نے اس کی بنیاد پیرس میں 1966 میں رکھ دی تھی۔ انہوں نے اساسی دستاویز پر بہت محنت سے کام کیا۔‘

سٹینلی وولپرٹ کے مطابق ’جے اے رحیم نے پپیلز پارٹی کا منشور اکتوبر 1966 میں تیار کر کے پرنٹ کر لیا تھا اور پھر پیرس سے بھٹو کو خط لکھ کر اس بارے میں آگاہ کیا۔‘

جے اے رحیم نے لکھا کہ ’منشور تیار ہو چکا ہے اور تحریک کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ میں منصوبے کے مطابق کام جاری رکھوں گا اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اپنا کردار ادا کریں گے۔ خاموش رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ موجودہ بدعنوان حکومت کا متبادل موجود ہے۔ یہ منشور ہمارے لیے رہنما کا کام کرے گا۔‘

عوام میں اپنی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے جے اے رحیم کے ہمراہ 16 ستمبر 1967 کو حیدر آباد میں میر رسول بخش تالپور کی رہائش گاہ پر ایک نئی جماعت بنانے کے ارادے کا عوامی طور پر اعلان کیا۔

اس اعلان کے مطابق یہ ایک قومی ترقی پسند جماعت ہو گی جس کی جڑیں مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں گہری ہوں گی۔

اس اعلان کے بعد نئی جماعت کی اساس رکھنے کے لیے 30 نومبر اور یکم دسمبر کی تاریخ کا فیصلہ کیا گیا۔

فلپ ایڈورڈ جونز کے مطابق اس اجلاس کے لیے لاہور کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ اس شہر میں بھٹو کی حمایت زیادہ تھی، دوسری وجہ پاکستانی سیاست میں لاہور کی تاریخی اہمیت تھی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی لاہور کو اہم بناتی تھی کہ وہ پنجاب کا سب سے بڑا شہر تھا اور پنجاب مغربی پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ تھا۔

جے اے رحیم کا عروج و زوال

جے اے رحیم تحریک پاکستان میں شامل رہے تھے لیکن وہ ایک مارکسٹ دانشور اور سابق سول سرونٹ بھی تھے۔ وہ 1965 تک سیاسی طور پر غیر فعال رہے۔

لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان دونوں شخصیات میں بھی اختلافات پیدا ہونے لگے اور جب بھٹو نے سوشلسٹ پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے دائیں بازو کی جماعتوں کے دباؤ میں فیصلے کرنا شروع کیے تو دونوں کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔

فلپ جونز لکھتے ہیں کہ بھٹو چاہتے تھے جے اے رحیم فرانس میں پاکستان کے سفیر کا عہدہ سنبھال لیں لیکن جے اے رحیم اس پر راضی نہ تھے۔ 

1975 میں جے اے رحیم کراچی میں بھٹو سے ملاقات کے لیے 70 کلفٹن میں ان کی رہائش گاہ پر موجود تھے، مگر ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد انہوں نے کہا ’میں لاڑکانہ کے مہاراجہ کا مزید انتظار نہیں کروں گا۔‘

اس سے اگلے ہی دن بھٹو کے سکیورٹی گارڈز کے ایک گروپ نے جے اے رحیم کے گھر پر دھاوا بول دیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں قید کر دیا گیا۔ بھٹو نے جے اے رحیم پر اپنی قوم کی بےعزتی کرنے کا الزام عائد کیا لیکن جلد ہی انہیں رہا کرتے ہوئے ان سے معافی مانگ لی۔

جے اے رحیم 1977 میں چل بسے۔ 

1970 کے ’شفاف‘ انتخابات جن کے بعد ملک ٹوٹ گیا

1970 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کا اعلان کیا تو آٹھ اکتوبر 1970 کو پاکستان پیپلز پارٹی کو تلوار کا نشان دیا گیا جبکہ جماعت اسلامی کو ترازو، مسلم لیگ قیوم کو شیر کا نشان دیا گیا۔

سات دسمبر 1970 کو مشرقی اور مغربی پاکستان کی تین سو نشستوں پر 1499 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو دو کے علاوہ تمام نشستوں پر فتح ملی جبکہ مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشستیں پیپلز پارٹی کے نام رہیں۔

’ذوالفقار علی بھٹو ہی پیپلز پارٹی ہیں‘

فلپ ایڈورڈ جونز اپنی تصنیف ’دی پاکستان پیپلز پارٹی: رائز ٹو پاور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ذوالفقار علی بھٹو ہی پاکستان پیپلز پارٹی ہیں،‘ یہ وہ جملہ تھا جو اس دور میں اکثر سننے کو ملتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق اس دور میں جب پاکستان پیپلز پارٹی جب اپوزیشن میں تھی تو اس میں ایک رہنما کے غلبے کے اثرات واضح تھے۔ اس دور میں جماعت کے نظریاتی دھڑے کو عروج حاصل تھا۔

فلپ ای جونز لکھتے ہیں کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی نے انقلاب روس کی سرخیل جماعت بولشویک پارٹی کے ماڈل کو دہراتے ہوئے چیئرمین اور سینٹرل کمیٹی کے عہدے قائم کیے اور اپنی تنظیمی ڈھانچے میں بھی اسی ماڈل پر کام کیا۔‘

انہوں نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی اس حکمت عملی پر بھی تفصیل سے لکھا جو پیپلز پارٹی کی اندرونی اور بیرونی سیاست سے متعلق تھی۔

ان کے مطابق ایوب خان کی کابینہ سے سے نکلنے اور نئی جماعت کی بنیاد رکھنے کے درمیانے عرصے میں انہوں نے سیاسی حکمت عملی کے طور پر حکومت کی بڑھتی مخالفت اور عوامی رائے کا ادراک اور مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کی طاقت اور کمزوری کو سمجھنے پر توجہ دی۔

پیپلز پارٹی کی اندرونی حکمت عملی

فلپ جونز لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی اندرونی حکمت عملی دو وجوہات کی بنیاد پر اہم تھی۔ بھٹو کو پاکستان فوج میں کچھ حمایت حاصل تھی جبکہ اس کے علاوہ بیورو کریسی کے نوجوان افسران، طلبہ جماعتوں اور ایک سیاسی جماعت میں بھی ان کے کچھ ہمدرد موجود تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’بھٹو کے مطابق حکومت ان کے اپوزیشن میں جانے سے خوش نہیں تھی اور صدر ایوب کی ایما پر ان کے نمائندوں، وزرا، پولیس اور انٹیلی جنس افسران، گورنر موسیٰ اور ایوب خان کے خاندان کے افراد نے متعدد بار ان سے مفاہمت کے لیے رابطہ کیا۔

انہیں خارجہ امور پر غیر سرکاری مشیر کے عہدے کی پیش کش کی تاہم انہوں نے یہ کہتے ہوئے یہ پیش کش مسترد کر دی کہ وہ 1970 کی صدارتی انتخابات میں ذاتی طور پر حصہ نہیں لیں گے۔

پیپلز پارٹی کی بیرونی حکمت عملی

فلپ جونز کے مطابق بھٹو کو پاکستان کے شہری علاقوں میں مضبوط حمایت حاصل تھی جن میں وکلا، دانشور اور طلبہ شامل تھے۔ یہ طبقہ 22 ستمبر اور 25 اکتوبر 1965 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھٹو کی تقریروں سے متاثر تھا۔

یہ طبقہ بیرونی دباؤ کے شکار ایوب خان کے مقابلے میں بھٹو کو پاکستانی مفادات کے حقیقی محافظ کے طور پر دیکھتا تھا اور ان کی نظر میں وہ ایک ’عظیم قومی ہیرو‘ تھے۔

اس بات کا ثبوت کابینہ سے نکلنے کے بعد راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں ہونے والے ان کے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت سے ملتا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست