ہفتے کو اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ سے قیدوں کی واپسی اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کو معزول کرنے کے لیے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا۔
خبر رساں یجنسی اے ایف پی کے مطابق مظاہرین نے شہر کے ہبیما سکوائر کی طرف مارچ کیا، کچھ نے نتن یاہو کو ’برائی کا چہرہ‘ قرار دیتے ہوئے ’فوری انتخابات‘ کا مطالبہ کیا تھا۔
قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین حیفہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر بھی جمع ہوئے۔
حماس کی جانب سے پیر کو مزید دو قیدیوں کی موت کے اعلان کے بعد نتن یاہو پر شدید دباؤ ہے کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے قیدی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کو واپس لائیں۔
اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے قیدی ایلون شمریز کے والد اوی لولو شمریز نے تل ابیب میں اے ایف پی کو بتایا کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جس طرح ہم کر رہے ہیں، تمام قیدی مر جائیں گے. انہیں رہا کرانے میں ابھی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔‘
ہفتہ کی شام ایک بریفنگ میں فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاغری نے کہا کہ ’فوجیوں کو جنوبی غزہ کی پٹی میں خان یونس میں ایک سرنگ ملی ہے جہاں کچھ قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں قیدیوں کی موجودگی کی نشاندہی کرنے والے شواہد ملے ہیں۔ اس شواہد میں ایک پانچ سالہ قیدی کی پینٹنگز بھی شامل تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تقریبا 20 قیدیوں‘ کو مختلف اوقات میں سرنگ میں رکھا گیا تھا۔ ’دن کی روشنی کے بغیر مشکل حالات میں۔ کم آکسیجن اور خوفناک حبس میں۔‘
ہاغری نے کہا کہ فوجی سرنگ میں داخل ہوئے جہاں ان کا سامنا عسکریت پسندوں سے ہوا اور ان کی لڑائی ہوئی جس میں ’عسکریت پسند مارے گئے۔‘
نتن یاہو کی اتحادی حکومت کو جنگ سے نمٹنے کے طریقہ کار پر حریف سیاست دانوں اور ناقدین کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مظاہرے میں شامل ایک اور شخص یل نیو نے کہا کہ اسرائیل کو ملک کی سمت درست کرنے کے لیے ایک نئی حکومت کی اشد ضرورت ہے۔
مظاہرین میں شامل ایک وکیل، ڈور اینڈوف نے کہا کہ جنگ روکنی اور قیدیوں کو واپس لانا چاہیے۔
اینڈوف نے نیتن یاہو کے بارے میں کہا کہ ’وہ واقعی چاہتے ہیں کہ یہ جنگ جاری رہے۔
’ہم جنگ سات اکتوبر کو پہلے ہی ہار چکے ہیں جب ان لوگوں کو قیدی بنایا گیا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا خاندان، ہمارے قیدی کیے ہوئے لوگ گھر واپس آئیں۔‘
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو فلسطینی گروپ حماس کے حملے میں 1140 اسرائیلی مارے گئے تھے۔
جبکہ تقریباً 250 کو قیدی بنا لیا گیا تھا جن میں سے 132 کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی اعداد و شمار مطابق کم از کم 27 قیدی مارے گئے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملوں میں غزہ میں کم از کم 24 ہزار 927 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس(ٹوئیٹر) پر لکھ کہ ’غزہ کے لوگ نہ صرف بموں اور گولیوں سے مر رہے ہیں بلکہ خوراک اور صاف پانی کی کمی اور ہسپتالوں میں بجلی اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے بھی مر رہے ہیں۔ یہ رکنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر سیز فائر اور تمام قیدیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کے اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔‘
دوسری جانب نتن یاہو نے اس عزم کا اظہار کیا ہے حماس عسکریت پسندوں کے ’خاتمے‘ تک غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری رہے گی، جس پر ان کے حریفوں اور یہاں تک کہ ان کی جنگی کابینہ کے اندر سے بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ ان کے اہداف واضح نہیں ہیں۔
مظاہرے میں شریک 69 سالہ یائر کاٹز کا کہنا تھا، ’ان کے زہریلے اتحاد کے علاوہ ملک میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ان کے فیصلے ملک کی بھلائی کے لیے نہیں ہیں، وہ صرف عہدے پر رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’ہم سب چاہتے ہیں کہ وہ استعفیٰ دیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے طور پر ایسا نہیں کریں گے۔‘
People in Gaza are dying not only from bombs and bullets, but from lack of food & clean water, and hospitals without power & medicine.
— António Guterres (@antonioguterres) January 20, 2024
This must stop.
I will not relent in my call for an immediate humanitarian ceasefire and the immediate & unconditional release of all hostages.
غزہ پر اسرائیلی جارحیت شروع ہونے سے پہلے ہی نیتن یاہو کو ان قانونی اصلاحات کے خلاف باقاعدگی سے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا جن کو ان کی حکومت آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
ان اصلاحات کا مقصد عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنا تھا، جسے مخالفین اسرائیل کی جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔