کے پی میں ’ہر 100 میں سے 11 بچے مزدوری کرنے پر مجبور‘ : سروے

یونیسیف کے سروے میں بتایا گیا کہ پانچ سال سے 17 سال کے درمیان 80 لاکھ سے زائد بچوں میں 11 فیصد بچے کام کرتے ہیں۔

17 جون 2023 کو پشاور میں ایک بچہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے ہوئے (اے ایف پی/عبدالمجید)

خیبر پختونخوا میں بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف کے تعاون سے چائلڈ لیبر سروے کیا گیا جس کے مطابق بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں میں پڑھنے کی بجائے محنت مشقت کر رہی ہے۔

پشاور میں اس سروے کی فائنڈنگ جمعرات کو ایک تقریب میں پیش کی گئیں جس میں متعلقہ لیبر تنظیموں سمیت یونیسیف اور انٹرنیشنل لیبر آرگانائزیشن کے نمائندے بھی شریک تھے۔ 

پشاور کی سڑکوں پر آپ نے بچوں کو بھیک مانگتے ہوئے، پانی کی بوتل اور وائپر ہاتھ میں پکڑے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہوئے اور شہر کی مختلف گاڑیوں کی ورک شاپوں میں 18 سال سے کم عمر بچوں کو مزدوری کرتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا۔ 

اس معاملے پر تحقیق کے مقصد سے یونیسیف کا سروے صوبے کے 32 اضلاع میں کیا گیا ہے۔

اس سروے کے مطابق صوبے میں پانچ سال سے 17 سال کے درمیان 80 لاکھ سے زائد بچوں میں 11 فیصد بچے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے 88 فیصد چائلڈ لیبر یعنی مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ 

اس کا مطلب ہے کہ صوبے کے ہر 100 بچوں میں سے 11 بچے مختلف جگہوں پر مزدوری کر رہے ہیں جبکہ ان مزدوری کرنے والے بچوں میں 73 فیصد سے زائد مشقت کی مزدوری کر رہے ہیں۔

سب سے زیادہ بچے ضلع بنوں میں چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جبکہ سب سے کم چائلڈ لیبر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم سروے کے مطابق ایسے خاندان جن میں کسی نے بھی پرائمری یا مڈل کی تعلیم حاصل کی ہے، کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے خاندان میں چائلڈ لیبر کم ہے۔ 

سروے کے مطابق مزدوری کرنے والوں میں 52 فیصد سے زائد زراعت، جنگلات اور ماہی گیری کی صنعت میں کام کرتے ہیں۔ 

اسی طرح دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ (19 فیصد) بچے پانی لانے کے کام سے وابستہ ہیں جبکہ تقریبا 10 فیصد مزدوری کرنے والے بچے ہول سیل اور تجارت کے کام سے وابستہ ہیں۔ 

ان ورکنگ بچوں کے حوالے سے سروے کے مطابق 43 فیصد سے زائد بچے سکول نہیں جاتے اور ان میں 22 فیصد بچے ایسے تھے جن کے والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جبکہ 20 سے زائد بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ سکول کی بہتر سہولت موجود نہیں ہے۔ 

سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر سے وابستہ بچوں میں 16 فیصد بچے کسی نہ کسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں اور چائلڈ لیبر سے وابستہ بچوں میں 28 فیصد سے زائد نائٹ شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ 

عمران ٹکر پشاور میں بچوں کے حقوق کے کارکن ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک تو اس سروے میں گھریلو  مزدور بچوں کے اعداد و شمار دکھائی نہیں دیتے اور لیبر ڈپارٹمنٹ کو اس کے اعداد وشمار اکٹھا کرکے منظر عام پر لانے چاہییں۔ 

ٹکر نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار بچوں کی مزدوری کے حوالے سے ایک تلخ پہلو دکھا رہا ہے جس کے لیے حکومتی متعلقہ اداروں کو ایک جامع پالیسی بنا کر روکنا چاہیے۔

عمران ٹکر نے بتایا، ’جن شعبوں میں جہاں کہیں بھی بچے زیادہ ہیں، ان وجوہات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نو لاکھ کے قریب بچے سکول جانے کی عمر میں اگر مزدوری کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے اتنے ہی بچے ہر وقت کسی بھی قسم کے خطرات کا سامنا کرسکتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ  حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو چائلڈ لیبر اور اس سے درپیش خطرات کا راستہ روکنا چاہیے جو کہ وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ 

ٹکر کے مطابق: ’ہمارے صوبے میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن، چائلڈ لیبر کا قانون، مفت اور لازمی تعلیم کا قانون موجود ہے جن کو عمل میں لانا چاہیے تاکہ بچے لیبر کی بجائے سکول جائیں اور جہاں کہیں بھی ان کو کسی بھی قسم کے ذہنی، جسمانی یا جنسی خطرات ہوں تو خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر ایکٹ 2010 کے تحت اس کا محاسبہ ممکن بنایا جائے۔‘

 ٹکر کا کہنا تھا کہ ہر ضلعے میں کم ازکم ایک چائلڈ پروٹیکشن عدالت ہو چونکہ بچوں سے عام طور پر بھی اور مزدوری کے دوران بھی زیادتی کے واقعات کے اعداد وشمار ’خطرناک ترین‘ ہیں جس سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ہر ضلعے میں چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں ہوں بلکہ ہر ضلعے اور تحصیل کی سطح پر فعال چائلڈ پروٹیکشن یونٹس بھی ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل