لیبر کی کام کی صلاحیت میں کمی، ناکام پاکستانی پالیسیوں کا خمیازہ

جنوبی ایشیا کے ہم عصر ممالک اور تیزی سے تبدیل ہونے والی دیگر ایشیائی معیشتوں، جنہوں نے شہریوں کا معیارِ زندگی نمایاں طور پر بہتر کیا، کے ساتھ موازنے سے یہ ناقص کارکردگی نمایاں طور پر واضح ہو جاتی ہے۔

چھ دسمبر 2023 کو لاہور میں مزدور ایک مقام پر تعمیری کام کرتے ہوئے (اے ایف پی/ عارف علی)

ایک انڈپینڈنٹ تھنک ٹینک اکنامک ایڈوائزری گروپ (ای اے جی) کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب ’سٹک اِن دا مڈ‘ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران پاکستان میں لیبر کی کام کی صلاحیت میں سست نمو کی واضح عکاسی کرتی ہے۔

جنوبی ایشیا کے ہم عصر ممالک اور تیزی سے تبدیل ہونے والی دیگر ایشیائی معیشتوں، جنہوں نے شہریوں کا معیارِ زندگی نمایاں طور پر بہتر کیا، کے ساتھ موازنے سے یہ ناقص کارکردگی نمایاں طور پر واضح ہو جاتی ہے۔

برسٹل یونیورسٹی کے ماہر معاشیات ڈاکٹر احمد پیرزادہ اور ان کے ساتھیوں کے بقول 1990 سے 2018 کے درمیان 28 برسوں میں پاکستان میں لیبر کی کام کی پیداواری صلاحیت میں صرف 45 فیصد اضافہ ہوا، جس کا مطلب ہے کہ اوسط سالانہ شرح نمو صرف 1.33 فیصد رہی۔

اس کے برعکس، دیگر جنوبی ایشیائی معیشتوں میں لیبر کی پیداواری صلاحیت میں دو گنا سے زیادہ بہتری آئی۔ بالخصوص، بنگلہ دیش اور انڈیا میں بالترتیب 191 فیصد اور 263 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جبکہ اسی عرصے کے دوران چین کی لیبر کی پیداواری صلاحیت میں آٹھ گنا اضافہ ہوا، جس میں متعلقہ ممالک کی اوسط سالانہ ترقی کی شرح 3.88 فیصد، 4.72 فیصد اور 8.12 فیصد رہی۔

پاکستان کے مقابلے میں گروپ کے ساتھی ممالک میں کام کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں ان ممالک کے اندر افرادی قوت زراعت سے نکل کر مینوفیکچرنگ اور سروسز کی طرف آئی ہے۔

اس طرح کی تبدیلی پاکستان میں واضح طور پر غائب ہے۔ اگرچہ 1990 کی دہائی سے لے کر آج تک روزگار میں زرعی شعبے کا حصہ تقریباً 10 فیصد کم ہوا ہے لیکن یہ ویتنام اور چین میں 40 فیصد پوائنٹ کی کمی اور اسی عرصے کے دوران بنگلہ دیش، انڈیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ترکی اور سری لنکا جیسے ممالک میں 30-20 فیصد پوائنٹ کی کمی کے بالکل برعکس ہے۔

پاکستان کو گذشتہ تین دہائیوں کے دوران برآمدات اور درآمدات دونوں کے لحاظ سے اپنی تجارت میں جمود کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت کے مجموعی ڈھانچے میں محدود تبدیلی آئی ہے اور وہ بھی تیزی سے ترقی کرنے والے دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں سست رفتار سے۔

پھر اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی چیز پاکستان میں تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ پیرزادہ اور دیگر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس میں اہم کردار ادا کرنے والا عنصر سرمائے اور پیداوار کا کم اور گھٹتا ہوا تناسب ہے۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ ’1970 کی دہائی کے آخر میں سرمائے اور پیداوار کا تناسب تین سے گھٹ کر 2018 میں صرف 1.61 رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس اس عرصے کے دوران علاقائی معیشتوں کے لیے یہ تناسب یا تو بڑھا ہے یا مستحکم رہا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی وجہ نجی شعبے کی جانب سے پیداواری صلاحیت میں سرمایہ کاری کی نسبتاً کم سطح ہے، جو عوام کی بہتری میں کم سرمایہ کاری کے پیش نظر انسانی سرمائے کو خاطر خواہ طور پر بڑھانے میں ناکامی کی وجہ سے اور بڑھ گئی ہے۔

ہیومن کیپیٹل انڈیکس کے پیمانے پر اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں ہیومن کیپیٹل کی سطح میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ زیر غور مدت کے دوران علاقائی معیشتوں سے نمایاں طور پر نیچے رہا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں لیبر کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ جسمانی اور ہیومن کیپیٹل کے مجموعے سے ہوتا ہے اور ان دونوں میں پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے دیگر ترقی پذیر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔

مزید برآں، بامعنی تبدیلی لانے کے لیے معاشی وسائل کو کم پیداواری سے زیادہ پیداواری سرگرمیوں کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔

 تاہم پاکستان میں معاشی پالیسیوں نے اس طرح کی منتقلی کی حوصلہ شکنی کا کام کیا ہے۔

کاروباری ادارے پیداواری صلاحیت میں اضافے یا عالمی مسابقت میں سرمایہ کاری کے بغیر پھلتے پھولتے رہتے ہیں کیونکہ ریاستی پالیسیاں انہیں تحفظ اور سبسڈی کے امتزاج سے برقرار رکھتی ہیں۔

دیگر ممالک کے برعکس کاروبار کی بندش اور زیادہ پیداواری اداروں کے ابھرنے کا چکر پاکستان میں خاص طور پر غائب ہے، جو معاشی وسائل کو جدید اور عالمی سطح پر مسابقتی کاروباروں کی طرف منتقل ہونے سے روکتا ہے۔

 80 اور 90 کی دہائیوں میں تجارت اور مالیاتی شعبے کی لبرلائزیشن کے تناظر میں، کاروباری بندشیں جو قیمتوں کے اشارے کے ذریعے ناگزیر ہونی چاہیے تھیں، مالی اور مالیاتی پیکجوں کے ذریعے جاری رکھی گئیں۔ ’زومبی‘ فرموں کو برقرار رکھنے کی یہ پالیسی آج تک جاری ہے۔

تعلیمی تحقیق کے ایک بڑے ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے پیرزادہ نے تجویز کیا کہ پالیسی ساز حکمران اشرافیہ سے وابستہ افراد یا گروہوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے منفی پالیسیوں کو فروغ دیتے ہیں۔

شائع شدہ تحقیق کی مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پاکستان میں طاقتور خاندانوں نے بحرانوں کے دوران تجارتی تحفظ کے اقدامات کے لیے لابنگ کی، اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کیا، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب مارکیٹ کی قوتیں مروجہ معاشی ڈھانچے کے ناکافی ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔

پالیسیوں کا یہ تسلسل جو عوام کے لیے کام کرنے میں ناکام رہتا ہے، پالیسی سازی کے عمل میں ایک گہرا مسئلہ ظاہر کرتا ہے۔ یہ حکمران طبقوں کے مابین طاقت کی حرکیات سے متاثر ہے، جو اپنے فائدے کے لیے پالیسیوں کو تشکیل دینے کا اختیار رکھتے ہیں اور عوام، جن کے پاس اپنی تقدیر بدلنے کا اختیار محدود ہے۔

سیاسی تبدیلیوں پر ایک مقالے میں، آسیمولو اور رابنسن (1999) نے ایک فریم ورک تجویز کیا ہے، جو حکمران اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیوں اور غیر جمہوری اداروں کے پھیلاؤ کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالتا ہے۔

اشرافیہ اور عوام کے درمیان بڑی تفریق والے معاشروں میں، غیر جمہوری سے جمہوری اداروں میں منتقلی اشرافیہ کے لیے مہنگی ہے کیونکہ یہ معاشی وسائل کو ان سے دور کرتی ہے۔

پسماندہ غریب سیاسی ہلچل کے ذریعے طاقت کا مقابلہ کر سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر اشرافیہ کو جمہوری بنانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

یہ فریم ورک اس بات پر زور دیتا ہے کہ پاکستان میں وسائل کی غلط تقسیم کا چیلنج محض ایک تکنیکی یا انتظامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ حکمران اشرافیہ اور محروم عوام کے درمیان اقتدار کے تعلقات سے گہرا جڑا ہوا ہے۔

جاوید حسن پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر منافع بخش اور غیر منافع بخش شعبے میں سینیئر ایگزیکٹو عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر