کالا باغ: قبروں کی سلیں بلامعاوضہ بنانے والے مزدور

کالا باغ کے گاؤں وانڈھا ککڑاں والا کا ایک خاندان کئی نسلوں سے سنگلاخ چٹانوں کو توڑ کر قبروں کی سلیں تیار کرتا آ رہا ہے۔

کالا باغ کے نواحی علاقے وانڈھا ککڑاں کے محمد رمیض کا خاندان کئی نسلوں سے سنگلاخ چٹانوں کو توڑ کر قبروں پر رکھنے والی سلیں تیار کرتا آ رہا ہے اور وہ یہ کام بلا معاوضہ کرتے ہیں۔

وانڈھا ککڑاں والا میانوالی کے علاقے کالا باغ سے دو کلومیٹر دور ہے۔ اس گاؤں کے اطراف میں سنگلاخ چٹانیں ہیں اور قبروں کی سلیں بنانے کے پتھر یہیں سے نکالے جاتے ہیں۔ ان چٹانوں کے قریب پہنچتے ہی آپ کو ہتھوڑوں کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔

محمد رمیض اور ان کے ساتھیوں کو جیسے ہی کوئی قبر تیار کرنے کی اطلاع ملتی ہے، وہ ہتھوڑے اٹھائے چٹانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک قبر کے لیے عمومی طور پر چھ سے سات سلیں کافی ہوتی ہیں لیکن بعض اوقات چٹان کی چوڑائی اور لمبائی کی وجہ سے تین سے چار سلیں بھی کافی ہوتی ہیں۔

محمد رمیض کے مطابق ایک قبر کے لیے سلیں تیار کرنے میں انہیں ’دو سے ڈھائی گھنٹے‘ کا وقت لگتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ہمارے دادا بھی یہی کام کرتے تھے، ہمارے والد نے بھی یہ کام کیا، ہم بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ قبروں کی سلیں اس لیے بناتے ہیں کہ یہ ثواب کا کام ہے۔ اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بھی یہ کام سکھائیں گے کہ وہ بھی فی سبیل اللہ یہ کام جاری رکھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد رمیض قبروں کی سلیں بنانے کے علاوہ گزر اوقات کے لیے علاقے میں موجود نمک کی کان میں بھی مزدوری کرتے ہیں۔

انہوں نے یہ کام فی سبیل اللہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ ورثا کو میت چھوڑ کر قبر تیار کرنے کی فکر نہ کرنی پڑے۔‘

محمد رمیض نے بتایا کہ ’جب برسات کے ساتھ بڑے بڑے پتھر بہہ کر آتے ہیں تو ہم ان کی سلیں تیار کر کے رکھ لیتے ہیں، جو ضرورت کے وقت کام آتی ہیں۔ اگر وہ کم پڑ جائیں تو پھر تازہ چٹان کاٹ کر سلیں تیار کرتے ہیں۔‘

محمد رمیض کو قبروں کی سلیں تیار کرتے ہوئے 20 سے 21 سال ہو چکے ہیں، تاہم ان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا جب انہوں نے اپنے ماموں کی قبر کے لیے سلیں بنائیں۔

اس بات کو یاد کرتے ہوئے محمد رمیض نے بتایا: ’میں نے یہ کام اپنے ماموں سے سیکھا تھا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی قبر کے لیے سلیں میں نے بنائی تھیں۔ اس دوران مجھے ان ہی کا خیال آتا رہا ہے کہ وہ میرے ماموں تھے۔ میرے استاد تھے اور آج میں کی قبر کے لیے سلیں بنا رہا ہوں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی