صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے شہر کالا باغ میں واقع نواب آف کالا باغ کا قلعہ فن تعمیر کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے۔
1911 میں سابق گورنر مغربی پاکستان نواب ملک امیر محمد خان کے والد ملک عطا محمد خان نے بیرونی حملہ آوروں کا شہر سے باہر مقابلہ کرنے اور دفاعی مقاصد کے لیے ریلوے پل کے پاس 100 کنال سے زیادہ رقبے پر محیط یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا تاکہ شہریوں کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
اس قلعے کے مرکزی گیٹ کو کراس کرنے کے بعد اندر دائیں جانب گھوڑوں کا اصطبل اور بائیں جانب آٹے کی چکی اور ملازمین کی رہائشی کالونی نظر آتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ بادشاہ کے محل میں آ گئے ہوں۔
سامنے ایک منجنیق لگی ہوئی ہے، جو شہر کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لیے نصب کی گئی تھی۔
برآمدے کی موٹی دیوار پر خان بہادر ملک عطا محمد خان کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے، جس پر قلعے کی تعمیر کا سال (1911) درج ہے۔ برآمدے میں دیواروں پر لگے ہرن کے سر اور دورِ قدیم کی بنی دو سے تین فٹ موٹی دیواریں ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔
مہمان خانے کے ساتھ ہی وہ جگہ بنی ہوئی ہے، جہاں نواب ملک امیر محمد خان کے زیر استعمال اشیا کے کمرے ہیں۔
پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہی گورنر مغربی پاکستان نواب ملک امیر محمد خان آف کالاباغ کے والد ملک عطا محمد خان کی تصاویر، نواب ملک امیر محمد خان کے زمانہ طالب علمی کی تصاویر، قران پاک کا قدیم نسخہ اور ان کے بیٹوں نواب ملک مظفر خان، نواب ملک اللہ یار خان، نواب ملک اسد خان اور نواب ملک اعظم خان کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نواب ملک امیر محمد خان آف کالا باغ 20 جون 1910 کو کالاباغ کے ایک جاگیردار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔
ایچیسن کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ آکسفورڈ یونیورسٹی چلے گئے، جہاں انہوں نے جدید زراعت کی ڈگری حاصل کی۔
اس قلعے کے منتظم عبدالرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نواب ملک امیر محمد خان کے زیر استعمال ذاتی اشیا کے کمروں کی دیکھ بھال ان کے پوتے نوابزادہ ملک فواد خان اور نوابزادہ ملک عماد خان کرتے ہیں۔
’ان کی طرف سے خصوصی ہدایت ہے کہ جو بھی شخص ان یاد گار اشیا کو دیکھنا چاہے، اسے بلا روک ٹوک یہ نادر اشیا دکھائی جائیں اور ان کی خاطر تواضع کا خصوصی خیال رکھا جائے۔‘
عبدالرحمٰن بتاتے ہیں کہ جو لوگ ان یاد گار اشیا کو دیکھنے آتے ہیں، ان میں افسر، زمیندار، تاجر، طلبہ اور ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔
’وہ آتے ہیں یہ اشیا دیکھتے ہیں اور ہم ان کی چائے پانی اور کھانے سے تواضع کرتے ہیں۔‘
ان مخصوص کمروں میں نواب ملک امیر محمد خان کے پاسپورٹ، ملکہ برطانیہ، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ، ہندوستان کے جواہر لال نہرو اور دیگر کئی سربراہان مملکت کی تصاویر موجود ہیں۔
بقول عبدالرحمٰن: ’ان میں جرمن اور دوسرے حکمرانوں کی جانب سے دیے گئے تحائف اور قیمتی اشیا شامل ہیں۔ ان کمروں میں نواب صاحب کے دور کی تیار کی گئی قیمتی ساگوان کی لکڑی کی میزیں، کرسیاں، الماریاں، انہیں دیے گئے ایوارڈز اور دیگر کئی ایسی اشیا بھی موجود ہیں جو ابھی تک اصلی حالت میں ہیں اور ان کی پالش کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔‘
پرانے دور کے کھانے کے انتظامات سے متعلق عبدالرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس جگہ کھانے کے کمرے میں برطانوی طرز کے برتن اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ اس قلعے میں خصوصی طور پر نواب صاحب نے ایک شیشے والا کمرہ تعمیر کروایا تھا، جس میں بیٹھ کر وہ کافی پیتے اور قلعے پر نظر رکھتے تھے۔ اسی کمرے میں قالین پر ہرن کی کھال بھی بطور فٹ میٹ استعمال ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ مہمان خانہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے جبکہ نواب ملک امیر محمد خان کا مطالعے کا کمرہ بھی اصل حالت میں موجود ہے اور ساری کتابیں بھی اسی طرح ہیں۔
’ان کمروں میں قدیم جنگوں میں استعمال ہونے والی تلواریں اور زرہ بکتر بھی موجود ہیں جو ان کے آباؤ اجداد پہن کر جنگیں لڑا کرتے تھے۔ یہاں شاہ ایران کے زیر استعمال کمرہ بھی ہے جہاں وہ اکثر آیا کرتے تھے۔‘
نواب آف کالا باغ کی ذاتی اور اہم جگہ کے بارے میں عبدالرحمٰن نے بتایا کہ یہاں جو سب سے قیمتی چیز ہے وہ غلاف کعبہ ہے، جو نواب صاحب کو سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل نے دیا تھا۔
عبدالرحمٰن بتاتے ہیں کہ ’نواب ملک امیر محمد خان یکم جون 1960 کو گورنر مغربی پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس عہدے پر وہ 18 ستمبر 1966 تک رہے۔
’ان کا یہ دور انتظامی امور کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ ان کے قلعے میں کئی نایاب تصاویر بھی ہیں۔ یہاں تعینات ایک انگریز افسر مسٹر کلبرن کے ہاتھ کے بنے فن پارے بھی موجود ہیں جو انہوں نے نواب ملک امیر محمد خان کو تحفے میں دیے تھے۔
قلعہ کالا باغ کے نگران عبدالرحمٰن نے مزید بتایا کہ یہاں کئی ملکی و غیر ملکی شخصیات قیام پذیر ہو چکی ہیں، جن میں سعودی شہزادے، ملکہ برطانیہ، شاہ ایران، جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیراعظم عمران خان، یوسف رضا گیلانی، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو، کئی وزرائے اعلیٰ، سفارت کاراور دیگر شامل ہیں۔
بقول عبدالرحمٰن یہاں کے ملازمین کو ہر ماہ تنخواہ کے علاوہ گندم بھی مہیا کی جاتی ہے۔ ان کے ملازمین کا کھانا، بجلی کے بل، ادویات اور رہائش یہاں کے نواب صاحبان کے ذمے ہیں، جو ہر ماہ باقاعدگی سے فراہم کیے جاتے ہیں جبکہ اگر یہاں کسی خاتون ملازمہ کا شوہر وفات پا جائے تو بیوہ کو تاحیات پینشن بھی کالاباغ ریاست کے خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔
نواب ملک امیر محمد خان کی صدر سکندر مرزا سے دوستی تھی، جن سے اپنے علاقے میں داؤد خیل کے مقام پر نواب ملک امیر محمد خان نے چار کارخانے منظور کروائے، جن میں سیمنٹ اور کھاد بنانے کی فیکٹریاں شامل تھیں۔ اس علاقے میں انڈسٹری کے قیام سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے۔