فوجی افسران فٹ ہوجائیں ورنہ نتائج کا سامنا کریں: انڈین فوج

نئے ٹیسٹ سسٹم کا مقصد ’افسران میں فٹنس کے گرتے ہوئے معیارات‘ کو حل کرنا ہے، اور اگر وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو وزن کم کرنے کے سخت پروگراموں پر عمل کیا جائے گا۔

انڈین فوج کا ایک دستہ 75ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر 26 جنوری 2024 کو نئی دہلی میں منعقدہ پریڈ میں مارچ کر رہا ہے (اے ایف پی)

انڈین فوج نے ’افسروں کے گرتے ہوئے جسمانی معیار‘ اور ’طرز زندگی کے باعث لگنے والی بیماریوں میں اضافے‘ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوجیوں کی بگڑتی ہوئی جسمانی چستی سے نمٹنے کے لیے ایک نئی پالیسی نافذ کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق نئی پالیسی سے جسمانی چستی کی تشخیص کے موجودہ نظام میں سخت اقدامات اور اضافی ٹیسٹ متعارف کرائے گئے ہیں۔

انڈین فوج کے لیے جسمانی فٹنس کی نئی پالیسی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں باقاعدہ سہ ماہی ٹیسٹ – بیٹل جسمانی مستعدی ٹیسٹ اور فزیکل پروفیشنسی ٹیسٹ – کے علاوہ نئے چیلنجز متعارف کروائے گئے ہیں۔

افسران کو اب سالانہ 10 کلومیٹر کا سپیڈ مارچ اور 32 کلومیٹر کے روٹ کی انتہائی مشکل مارچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ان کی جسمانی صلاحیتوں کا مزید جائزہ لینے کے لیے سالانہ 50 میٹر تیراکی کی مہارت کا ٹیسٹ بھی شامل کیا گیا ہے۔

موجودہ بیٹل فزیکل ایفیشینسی ٹیسٹ میں، شرکا کے لیے لازمی ہے کہ کامیابی کے ساتھ پانچ کلومیٹر کی دوڑ، 60 میٹر سپرنٹ، افقی اور عمودی دونوں طرح سے رسی پر چڑھنے میں مہارت کا مظاہرہ اور نو فٹ کی کھائی عبور کرنی ہوتی ہے۔

یہ سب ایک مخصوص وقت کے اندر کرنا ہوتا ہے جو ان کی عمر کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔

فزیکل پروفیشنسی ٹیسٹ میں مختلف ورزشیں شامل ہیں، جن میں 2.4 کلومیٹر کی دوڑ، پانچ میٹر شٹل رن، پش اپس، چن اپ، سیٹ اپ اور 100 میٹرسپرنٹ شامل ہیں۔

تیراکی کا ایک ٹیسٹ بھی شامل ہے، لیکن یہ صرف ان مقامات پر لیا جاتا ہے جہاں ضروری سہولیات دستیاب ہیں۔

رپورٹ کے مطابق فٹنس کے معیار پر پورا نہ اترنے کی سزا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسمانی معیارات پر پورا نہ اترنے والے افسران، خاص طور پر جن کو زیادہ وزن کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے، کو تحریری مشاورت اور بہتری لانے کے لیے 30 دن کا وقت دیا جائے گی جس کے دوران انہیں اضافی وزن کم کرنا ہوگا۔

اس عرصے میں کسی بھی چھٹی کی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔

فٹنس میں کوئی بہتری نہ دکھانے والوں کو انڈین فوجی قوانین یعنی آرمی ریگولیشن 15 اور آرمی ایکٹ 22 کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

نئی پالیسی کے مطابق، بریگیڈیئر رینک کا ایک افسر سہ ماہی ٹیسٹ کی نگرانی کرے گا، پہلے یہ کام کمانڈنگ افسر کے زیر انتظام ہوتا تھا اور اس میں ہر اہلکار کو اے پی اے سی [آرمی فزیکل فٹنس اسسمنٹ] کارڈ رکھنا ہوتا ہے۔

انڈین آرمی دنیا کی سب سے بڑی فوجوں میں سے ایک ہے اور مسلح افواج کا شمار ملک میں سب زیادہ ملازمتیں دینے والوں میں ہوتا ہے۔

تاہم، وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے تشویش کا اظہار کیا کہ بڑی تعداد میں فوجی طویل مدتی کیریئر کے دوران خدمات انجام دے رہے ہیں – جس کی وجہ سے مسلح افواج کے اندر اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر جنگی تیاری اور تاثیر میں کمی واقع ہوئی ہے۔

2022 میں انڈیا نے مغربی ’ٹور آف ڈیوٹی‘ سسٹم کی بنیاد پر انڈین افواج میں بھرتی کا ایک نیا منصوبہ متعارف کرایا تھا جس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔

انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی جانب سے 14 جون 2022 کو جاری کیے گئے نئے ’اگنی پتھ‘ منصوبے کے تحت 17.5 سے 21 سال کی عمر کے درخواست دہندگان کو تینوں مسلح افواج بحریہ، فضائیہ اور فوج میں بھرتی کیا جائے گا اور ان کی ملازمت امریکہ اور برطانیہ کے سسٹم کی طرح چار سال کے لیے ہوگی۔

ان معاہدوں کے اختتام پر تمام بھرتیوں میں سے صرف 25 فیصد کو رکھا جائے گا، باقی کو ملازمت چھوڑنی ہوگی – یہ اس سکیم کی سب سے متنازع خصوصیات میں سے ایک ہے۔

اگلے چار برسوں میں سالانہ تقریباً 50 ہزار سے 60 ہزار بھرتیاں کی جائیں گی اور توقع ہے کہ اس کے بعد یہ تعداد 90 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار تک پہنچ جائے گی۔

راج ناتھ سنگھ کے بقول ان تبدیلیوں سے فوج ’جوان اور [زیادہ] جنگ کے لیے تیار ہوجائے گی۔‘

دی انڈیپینڈنٹ نے تبصرہ کے لیے انڈین فوج سے رابطہ کیا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا