عراق، شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے 85 اہداف پر حملے: امریکہ

عراق اور شام میں جمعے کی شب ہونے والے ان حملوں کے بعد امریکی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز، راکٹ، میزائل اور ڈرون سٹوریج تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکہ نے جمعے کو کہا ہے کہ اس نے عراق اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف کم سے کم 85 اہداف پر حملے کیے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ حملے گذشتہ ہفتے ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کی طرف سے اردن میں خفیہ امریکی فوجی اڈے پر کیے گئے حملے کے ردعمل کے طور پر کیے گئے ہیں، جس میں تین امریکی فوجی مارے گئے اور 40 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

اگرچہ امریکہ نے ایران کے اندر کسی بھی جگہ کو نشانہ نہیں بنایا لیکن ان تازہ ترین حملوں سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے بڑھنے کا امکان ہے جہاں پہلے ہی اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور حوثی ملیشیا کی جانب سے بحیرہ احمر کی اہم گزرگاہ کو بلاک کرنے کی کوششوں کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے یمن کو نشانہ بنایا ہے۔

امریکی فوج نے جمعے کی شب جاری ایک بیان میں کہا کہ حملوں میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز، راکٹ، میزائل اور ڈرون سٹوریج کی تنصیبات کے ساتھ ساتھ لاجسٹکس اور گولہ باری کی سپلائی چین سے منسلک تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

فوج نے کہا کہ حملوں میں سات مقامات پر 85 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سے چار شام میں اور تین عراق میں تھے۔

امریکی فوج نے مزید بتایا کہ ان حملوں کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بی ون بمبار طیاروں کا استعمال بھی شامل تھا جنہوں نے اس مشن کے لیے امریکہ سے اڑان بھری تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی فوج نے ایران کی قدس فورس کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جو غیر ملکی جاسوسی اور نیم فوجی دستوں پر مشتمل ملیشیا ہیں اور مشرق وسطیٰ میں لبنان سے عراق اور یمن سے شام تک پھیلی ہوئی ہیں۔

امریکی جوائنٹ سٹاف کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس سمز نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حملے کامیاب رہے جن کے بعد بڑے دھماکے ہوئے کیونکہ ان حملوں میں عسکریت پسندوں کے ہتھیاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

تاہم نہ ہی پینٹاگون اور نہ ہی جوائنٹ سٹاف کے ڈائریکٹر نے ان حملوں کے نتیجے میں انسانی اموات کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم کیں۔

تاہم لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس سمز نے مزید کہا کہ حملے یہ جانتے ہوئے کیے گئے کہ ان تنصبات میں موجود افراد کی ممکنہ طور پر اموات ہوئی ہوں گی۔

شام کے سرکاری میڈیا نے جمعے کی شب کہا کہ شام عراق سرحد پر واقع صحرائی مقامات پر ’امریکی جارحیت‘ کے نتیجے میں متعدد افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔

عراق کا ردعمل

عراق نے ہفتے کی صبح اپنی سرزمین پر امریکی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’عراقی خودمختاری کی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیراعظم محمد شیعہ السودانی کے ترجمان جنرل یحییٰ رسول نے ایک بیان میں کہا: ’شام کی سرحد کے قریب مغربی عراق میں جمعے کو کیے گئے حملے عراقی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں اور عراق اور اس کے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا