انتخابی مہمات کے مقبول نعرے جو بڑی سیاسی جماعتوں کی پہچان بنے

 سٹیج پر کھڑے سیاسی رہنما کے منہ سے نکلنے والے چند الفاظ جنہیں عوام اچک لے تو انہیں کوئی واپس نہیں موڑ سکتا اور ان میں سے بعض تو مقبول نعرے بن جاتے ہیں۔

مدارس کے طلبہ 12 جنوری 2024 کو کراچی میں سڑک کنارے پاکستان پیپلز پارٹی کے نعروں والی پینٹ دیوار کے پاس سے گزر رہے ہیں (اے ایف پی)

2018 کی انتخابی مہم کے جلسے جلوس اور لمبی تقریریں تو ہماری یادداشت سے محو ہو گئیں لیکن اس دوران لگنے والے نعرے اس تاریخی موڑ کی پہچان بن گئے۔ گذشتہ الیکشن کا ذکر آتے ہی ’نیا پاکستان‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعرے ہمارے ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔

 سٹیج پر کھڑے لیڈر کے منہ سے نکلنے والے چند الفاظ جنہیں عوام اچک لے تو انہیں کوئی واپس نہیں موڑ سکتا۔ اس میں ’اُدھر تم اِدھر ہم‘ سے لے کر ’گو نواز گو‘  اور ’رو عمران رو‘ جیسے کڑوے کسیلے وار بھی شامل ہیں اور ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ جیسے گہرے فلسفیانہ نعرے بھی۔

کیا یہ نعرے محض خون گرمانے کا ذریعہ ہیں یا سیاسی مہم کی کامیابی میں بھی کوئی کردار ادا کرتے رہے ہیں؟ کیا یہ ہر الیکشن کی مخصوص فضا میں تبدیل ہوتے رہے ہیں؟ آٹھ فروری کے انتخابات کو تاریخ کن نعروں سے پہچانے گی؟

ہم ان سوالوں کے جواب پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ اور موجودہ انتخابی مہم کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مسلم لیگ ن: ’جاگ پنجابی جاگ‘ سے ’پاکستان کو نواز دو‘ تک کا سفر

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جماعتی بنیادوں پر پاکستان کے پہلے انتخابات 1988 میں منعقد ہوئے۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی تھی اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے مہرے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی شکل میں ’سائیکل‘ پر سوار تھے۔

جنرل حمید گل اور اسد درانی سمیت کئی متعلقہ افراد نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا تھا۔

آئی جے آئی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی، جب کہ مقبول چہرہ میاں نواز شریف تھے، جو 1985 سے پنجاب کے وزیراعلیٰ چلے آ رہے تھے۔

نو جماعتوں پر منتخب اسلامی جمہوری اتحاد کا نعرہ تھا ’نو ستارے بھائی بھائی، بے نظیر کی شامت آئی۔‘ تاہم اس دوران گونجنے والا ’جاگ پنجابی جاگ‘ کا نعرہ تاریخ میں ناقابلِ فراموش بازگشت چھوڑ گیا۔

اس وقت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات قومی اسمبلی کے الیکشن کے تین دن بعد ہوا کرتے تھے۔ 16 نومبر کو پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 92 جبکہ اتحاد نے 54 نشستوں پر کامیابی سمیٹی۔ محمد خان جونیجو، پیر پگارا اور غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے اتحاد کے سرکردہ رہنما شکست سے دوچار ہوئے۔ خیال رہے کہ یہ تینوں وزیراعظم بننے کے لیے اپنی اپنی لابی کر رہے تھے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد خان جونیجو اور غلام مصطفیٰ جتوئی دونوں نے اپنی شکست کا مورد الزام ’فرشتوں‘ کو ٹھہرایا، جن کا مقصد پنجابی نوجوان نواز شریف کا راستہ ہموار کرنا تھا۔ 2018 کے الیکشن میں یہ فرشتے ’خلائی مخلوق‘ کہے جانے لگے۔

تین روز بعد منعقد ہونے والے الیکشن میں سب کی نظریں پنجاب پر تھیں۔ پیپلز پارٹی کی ممکنہ فتح سے خائف پنجاب میں ’جاگ پنجابی جاگ‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ بھٹو سندھ کے تھے جب کہ نواز شریف پر لاہور کا ٹھپہ تھا۔ اخبارات کے صفحات اور پنجاب کی دیواریں اس نعرے سے بھر گئیں، جن کے ساتھ نواز شریف کی دیو قامت تصاویر لگی ہوتیں۔ نتیجہ یہ کہ پیپلز پارٹی پنجاب کا الیکشن ہار گئی اور مسلم لیگ حکومت بنانے میں کامیابی ہوئی، جس کے وزیراعلیٰ ایک بار پھر میاں نواز شریف بنے۔

سماجی دانشور سید احمد جعفر انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہیں: ’جو کام اسٹیبلشمنٹ کے لیے ویسے ناممکن تھا وہ اس نعرے نے کر دکھایا۔ اگر اتحاد کے ہاتھ یہ نعرہ نہ لگتا تو پاکستان کی سیاسی تاریخ یقیناً مختلف ہوتی۔ 1988 میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے پھسلنے والا پنجاب دوبارہ کبھی اس کے ہاتھ نہ آیا۔ اگرچہ یہ نعرہ اتحاد کے پلیٹ فارم سے لگا لیکن اس کا فائدہ اسی سیکشن کو ہوا جو نواز شریف کے ساتھ تھا۔‘

90 کی دہائی میں نواز شریف نے دو مقبول نعرے دیے۔ 1993 کی برطرفی کے بعد ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ اور 1997 میں ’قرض اتارو ملک سنوارو‘، لیکن ڈاکٹر جعفر احمد کے بقول ’ان کی زندگی مختصر اور اثرات محدود تھے۔‘

نواز شریف کی سیاسی زندگی کا ایک اہم موڑ 28 جولائی 2017 کو آیا جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں برطرف کر دیا۔

معروف صحافی سہیل وڑائچ انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہیں: ’پارٹی رہنماؤں کی اکثریتی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے نواز شریف نے موٹروے سے رائے ونڈ جانے کے بجائے نو اگست 2017 کو جی ٹی روڈ سے سفر کیا۔ اگلے روز جہلم پہنچ کر انہوں نے اپنی تقریر میں عدلیہ کو ماضی میں آمریت کا ساتھ دینے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے خود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے عوام سے کہا: ’کیا میں نے کسی ملکی امانت میں خیانت کی تھی؟ اگر نہیں تو پھر مجھے کیوں نکالا؟

’جی ٹی روڈ کے سفر کے دوران نواز شریف جگہ جگہ ٹھہرتے اور اپنے کارکنان سے یہی سوال کرتے، جس کے بطن سے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا جنم ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے متحرک نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ شروع کر دی، جس سے یہ نعرہ مزید مقبول یا بدنام ہوتا گیا۔‘

سیاسی تجزیہ کار احمد اعجاز اس حوالے سے کہتے ہیں: ’یہ نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ، پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کو پیغام تھا کہ وہ خاموش بیٹھنے والے نہیں۔ ان کے کارکن متحرک ہوئے، پارٹی کو بکھرنے سے بچانے میں اس نعرے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی نعرے کا زیادہ کلیئر ورژن ووٹ کو عزت دو تھا۔‘

جی ٹی روڈ کے سفر کے دوران نواز شریف نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بھی بلند کیا جو مسلم لیگ ن کی 2018 کی الیکشن مہم کی جان بن گیا۔ انہوں نے پہلی بار لالہ موسیٰ میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا: ’20 کروڑ عوام کے ووٹ کی عزت ہے یا نہیں؟ اگر ووٹ کوعزت نہیں دیں گے تو ملک آگے کیسے بڑھے گا۔‘ اس کے بعد انہوں نے جہاں بھی خطاب کیا، ساتھ میں نعرہ لگایا ’ووٹ کو‘ کارکنان جواب دیتے ’عزت دو۔‘

پی ڈی ایم کی حکومت اور شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد جب مسلم لیگ ن کی اسٹیبلشمنٹ سے قربت بڑھی، تب مخالفین نے اسی نعرے میں معمولی ترمیم سے اسے ’بوٹ کو عزت دو‘ کر دیا۔

احمد اعجاز کہتے ہیں: ’ووٹ کو عزت دو سے مسلم لیگ ن نے پہلی بار پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھلے عام بات کی۔ انہیں پذیرائی بھی ملی لیکن طاقتور حلقوں سے محاذ آرائی مسلم لیگ ن کے جینز میں شامل نہیں، اس لیے وہ اسے زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔

’اس کی ایک مثال 2021 میں فوجی چھاؤنیوں کے ہونے والے الیکشن کی دی جا سکتی ہے۔ تب مسلم لیگ ن نے یہ نعرہ ترک کرتے ہوئے ’کام کو ووٹ دو‘ سے تبدیل کر دیا تھا۔‘

مسلم لیگ ن نے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے ’قوم کو نواز دو‘ کا نیا نعرہ دیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے احمد اعجاز کہتے ہیں: ’2018 میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی فضا تھی، اس لیے نعرے اور الیکشن مہم اہمیت رکھتے تھے۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت میچ شروع ہونے سے پہلے ہی آؤٹ ہو چکی ہے۔ نتیجہ معلوم ہو تو نہ تماشائی دلچسپی لیتے ہیں، نہ خون جوش مارتا ہے۔ ’پاکستان کو نواز دو‘ میں ایسا کچھ بھی نہیں جو ہماری سیاسی یا انتخابی تاریخ کی پہچان بن سکے۔‘

پاکستان تحریک انصاف: ’تبدیلی‘ سے ’قیدی نمبر 804‘ تک

11 جون 1996 کو پہلی بار عمران خان نے لاہور میں  ایک چھوٹے سے سیاسی اجتماع سے خطاب کیا۔ اس دور کے پرانے اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق جب حامیوں نے ’جیوے جیوے عمران خان‘ کا نعرہ بلند کیا تو خان صاحب شرما گئے۔ کسے اندازہ تھا کہ آئندہ وہ ایک مقبول لیڈر بن کر ابھریں گے اور لاکھوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں مقبول ترین نعرے چھوڑ جائیں گے۔

’انصاف،‘ ’احتساب‘ اور ’کرپشن‘ کے خاتمے سے آغاز کرنے والے عمران خان کی پہلی بڑی سیاسی کامیابی 2011 کا مینارِ پاکستان جلسہ تھا۔ اس وقت تحریک انصاف کے پینا فلیکسز پر لکھا تھا: ’تب پاکستان بنایا تھا اب پاکستان بچائیں گے۔‘

احمد اعجاز کہتے ہیں: ’پاکستان تحریک انصاف ایک ابھرتی ہوئی قوت تھی جسے مقبول نعروں کے ذریعے عوام میں اپنی جگہ بنانا تھی۔ انہوں نے گیت بنائے، ایسے نعرے لگائے جو مانوس اور پرکشش تھے۔ تبدیلی کے لیے رائج لفظ ’انقلاب‘ تھا لیکن پی ٹی آئی جس نوجوان طبقے سے مخاطب تھی اسے روایتی الفاظ سے قریب نہیں لایا جا سکتا تھا۔ عمران خان نے ’وکٹیں گرانا‘ جیسی کرکٹ ویکیبلری (اصطلاح) استعمال کی جو بہت تازہ اور اثر انگیز تھی۔ ایسا لگتا ہے تحریک انصاف نے بہت محنت سے نعرے اور گیت تیار کیے۔

’صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی‘ اور تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے‘ جیسے نعرے 2013 اور 2018 کے انتخابات میں عام تھے۔

ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ عمران خان نے ایک طرف پرانی جماعتوں پر تابڑ توڑ حملے کیے تو دوسری طرف بہتر مستقبل کے خواب دکھائے، جس کی عکاسی ’نئے پاکستان‘ کے نعرہ میں جھلکتی ہے۔‘

معرف صحافی ضیغم خان نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سوشل میڈیا کی اہمیت کو سیاسی جماعتوں میں سے محض تحریک انصاف نے سمجھا۔ اس کے ٹائیگرز بھی وہ نسل رہی جو سوشل میڈیا کے ساتھ جوان ہوئی۔ اس لیے سوشل میڈیا فطری طور پر تحریک انصاف کے مزاج سے ہم آہنگ تھا۔ انہوں نے اسے جلسہ گاہ بنا دیا۔ مارچ 2022 میں عمران خان نے میلسی میں ایک تقریر کے دوران محض ایک بار کہا تھا کہ ’کیا ہم آپ کے غلام ہیں جو کہیں گے کر لیں گے‘ اور یہ فوراً سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔

’اسی طرح ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کے الفاظ انہوں نے کسی جلسے کے دوران نہیں بلکہ ایک انٹرویو میں کہے، جسے سوشل میڈیا نے اٹھا لیا اور آج یہ پی ٹی آئی کے امیدوار انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘

عمران خان نے 2014 کے دھرنے کو ’آزادی مارچ‘ کا نام دیا۔ انہوں نے قوم کو گھروں سے نکالنے کے لیے کہا کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا چاہیے؟ ’غلامی یا حقیقی آزادی۔‘ یہ الفاظ آج بھی تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں چھپنے والے بینرز اور پوسٹرز پر نظر آتے ہیں۔

اگرچہ آج عمران خان جیل میں اور ان کی پارٹی بطور جماعت انتخابات سے آؤٹ ہو چکی ہے لیکن پی ٹی آئی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ آج کل پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا پر سب سے مقبول نعرہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ ہے۔

احمد اعجاز کہتے ہیں: ’روایتی معنوں میں آپ ممکن ہے ’قیدی 804‘ کو نعرہ ہی نہ گنیں لیکن پنجاب میں اس سے زیادہ مقبول کوئی دوسرا نعرہ نہیں۔ پنجاب کے جن علاقوں کی بولی مختلف ہے وہاں بھی گلی محلوں تک ملکو کا یہ گیت پہنچا ہے۔ یہ عوامی گیت اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی: جو نعروں سے زیادہ بیانیے کی جماعت رہی

دیگر دو سیاسی جماعتوں کے برعکس پیپلز پارٹی کے نعرے کم و بیش آغاز سے آج تک ایک جیسے رہے ہیں۔ 1970 میں ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا جو نعرہ بھٹو نے لگایا، 2024 میں یہی نعرہ بلاول بھٹو لگا رہے ہیں۔

احمد اعجاز کہتے ہیں: ’پیپلز پارٹی نعروں سے زیادہ بیانیے کی جماعت ہے۔ نعرے بالعموم وقتی اور مخصوص فضا کے تشکیل کردہ ہوتے ہیں جبکہ بیانیے کی گہری فلسفیانہ بنیادیں ہوتی ہیں۔‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’پیپلز پارٹی پاکستان کی پہلی ایسی مقبول جماعت تھی جس نے عوامی منشور تیار کیا۔ اس سے پہلے فنکشنل لیگ وغیرہ نظریہ پاکستان کا راگ الاپے جا رہی تھیں، جس کا لوگوں کے زمینی مسائل سے کوئی ربط نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ میں زندگی کے بنیادی مسائل کی عکاسی کی۔ یہ بیانیہ ہے اور پیپلز پارٹی اسے ہمیشہ اپناتی آئی ہے، یہی وجہ ہے کہ بیشتر انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نعرے کم و بیش آغاز سے آج تک ایک جیسے ہیں۔ کیا ’جاگ پنجابی جاگ‘ کو آج مسلم لیگ اپنا سکتی ہے؟‘

’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ کہاں سے آیا اس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

بعض مبصرین کے نزدیک اسے پہلی بار اندرا گاندھی نے 1967 کے الیکشن میں استعمال کیا تھا جبکہ بھٹو کے دوست اور بعد میں انہیں جس مقدمے میں پھانسی ہوئی، اس کے مدعی احمد رضا قصوری ایک الگ واقعہ سناتے ہیں۔

ان کے مطابق جب بھٹو قصور آئے تو ’میں انہیں بابا بلھے شاہ کے مزار لے گیا جہاں دستار بندی ہوئی۔ حویلی کی جانب واپسی کے دوران میں نے بھٹو سے پوچھا کہ کیا وہ ان بزرگ کے بارے میں جانتے ہیں؟

’یہ پنجاب کے بہت بڑے انقلابی تھے۔ تین سو سال قبل انہوں نے سٹیٹس کو توڑا، ان کا کلام بہت پاورفل ہے۔ انہوں نے ایک نعرہ بلند کیا تھا کہ منگ اوے بندیا اللہ کو لوں جُلی، گُلی، کُلی۔‘

بھٹو نے پوچھا: ’اس کا کیا مطلب ہے؟‘ میں نے کہا: جلی ہے کپڑا، گلی روٹی ہے اور کلی مکان۔‘

جس پر ’بھٹو نے کہا کہ کیوں نہ ہم اسے اپنے منشور کا حصہ بنا لیں۔‘

اس طرح ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ بھٹو اور پیپلز پارٹی کی تاریخ کا حصہ بن گیا اور آج تک برابر سنائی دیتا ہے۔

 1970 اور 1977 کے انتخابات دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی تقسیم کا زمانہ تھا اور تب دونوں جانب سے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جو دیکھا سنا‘ کے مصنف قیوم نظامی لکھتے ہیں: ’مسلم لیگ کے لیڈر جناح کیپ پہن کر جلسوں میں آتے، ان کے جلسوں میں قائد اعظم، مسلم لیگ، پاکستان، کشمیر اور اسلام کے نعرے لگتے جو عوام کے لیے نئے نہ تھے۔ بھٹو ماؤ کیپ پہنتے، عوامی لباس شلوار کُرتے میں کبھی آستین چڑھا کر کبھی بٹن کھول کر عوامی انداز میں تقریریں کرتے۔ پیپلز پارٹی کے انتخابی جلسوں میں ’سوشل ازم آوے ہی آوے، جیہڑے دا ہووے اوہی کھاوے،‘ ’ساڈا بھٹو آوے ہی آوے،‘ ’سرمایہ داری ٹھاہ، جاگیرداری ٹھاہ، امریکہ ٹھاہ‘ کے نعرے لگتے جو عوام میں جوش و خروش بھر دیتے۔ نوجوان ڈھول کی تھاپ پر ’بھٹو آ گیا میدان میں ہے جمالو‘ کا راگ الاپتے اور انتخابی جلسوں میں دلکش سماں پیدا کر دیتے۔‘

اسی کتاب میں وہ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’پی پی پی کے حامی ٹرانسپورٹ مخالف امیدوار کی استعمال کرتے، کھانے بھی انہی کے کیمپوں سے کھاتے مگر ووٹ تلوار کو دیتے۔ انتخابی مہم میں ’بھٹو کو ووٹ دو بھٹو کو نوٹ دو‘ کا نعرہ بڑا مقبول ہوا۔ جب بیلٹ باکس کھولے گئے تو غریب عوام نے ووٹ کی پرچیوں کے ساتھ نوٹ بھی نتھی کیے ہوئے تھے۔‘

بھٹو کی پھانسی کے بعد ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ اور ’بھٹو کی بیٹی بے نظیر‘ پی پی کے حامیوں میں بہت مقبول رہے۔ حالیہ عرصے میں ’ایک زرداری سب پہ بھاری‘ کا نعرہ بھی اکثر سنائی دیتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت کوئی مقبول نعرہ نہیں۔

ضیغم خان کہتے ہیں: ’مقبول نعرے کے لیے مقبول چہرے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس جب تک کرشماتی لیڈر نہیں آتا تب تک دلکش نعرہ تخلیق بھی ہو گیا تو عوام میں سرایت نہیں کر سکے گا۔‘

چند بدنام نعرے اور ذاتی حملے

عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے بعد نارووال میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ عمران خان لوگوں کو چور کہتے تھے آج ان کا ’پورا خاندان‘ چور ثابت ہوا۔ گذشتہ الیکشن میں ہوبہو یہی بات عمران خان، شریف خاندان کے بارے میں کہہ رہے تھے اور اس دوران جلسوں میں نعرے لگتے ’سارا ٹبر چور ہے۔‘

پاکستان میں سیاست دانوں کے ایک دوسروں پر ذاتی حملے اور انہیں انتخابی جلسوں میں نعروں کی شکل استعمال کرنا ہر دور میں عام رہا ہے۔

 پروفیسر غفور احمد اپنی کتاب ’پھر مارشل لا آ گیا‘ میں 1977 کی انتخابی مہم کے دوران لیاقت باغ راولپنڈی میں منعقد ہونے والے پیپلز پارٹی کے جلسے کا احوال لکھتے ہیں۔ ’صاف ستھرے الیکشن کروانے کے دعوے دار نعرے لگا رہے تھے ’نو لاشیں ایک کفن،‘ ’نو تارے ہیر پھیر، آدھے تیتر آدھے بٹیر۔‘

 بات یہیں رکی نہیں بلکہ بھٹو صاحب جلسوں میں اصغر خان کو ’آلو‘ تک کہہ جاتے۔ ایسے بدترین ذاتی حملوں میں عمران خان کا ثانی مشکل سے ملے گا۔

 یوٹیوب پر موجود لوئر دیر کے ایک جلسے میں جیسے ہی وہ مائیک پر آتے ہیں، عوام نعرے لگانے لگتے ہیں، ’ڈیزل، ڈیزل۔‘ وہ عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں: ’ابھی میری جنرل باجوہ سے بات ہو رہی تھی انہوں نے مجھے کہا کہ عمران دیکھیں فضل الرحمٰن کو ڈیزل نہ کہنا۔ جنرل باجوہ میں نہیں کہہ رہا عوام نے اس کا نام ڈیزل رکھ دیا ہے۔‘ اور اس کے بعد فضا دوبارہ ’ڈیزل ڈیزل‘ کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔

اسی طرح عمران خان اور طاہر القادری نے 2014 کے آزادی مارچ میں ’گو نواز گو‘ کا نعرہ لگایا۔ بظاہر یہ بے ضرر سے الفاظ ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے لیے جان کا عذاب بن گئے۔ نواز شریف جہاں گئے یہ نعرہ سائے کی طرح کا ان کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ گلو بٹ جیسے ان کے وفادار بھی سلپ آف ٹنگ سے یہ نعرہ لگا بیٹھے۔

مسلم لیگ ن نے اس کے جواب میں ’رو عمران رو‘ کا نعرہ لگایا، لیکن اسے ویسی کامیابی نہ مل سکی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست