منٹو کو غالب سے عشق کیوں تھا؟

غالب اور منٹو دو بالکل مختلف شخصیتیں تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ کون سی چیز تھی جو منٹو کو مقناطیس کی طرح غالب کی طرف کھینچتی تھی؟

منٹو ساری زندگی غالب کے مداح رہے اور ان کے بارے میں انہوں نے متعدد بار لکھا (پبلک ڈومین)

(غالب کی 155ویں برسی کے موقعے پر خصوصی تحریر)

ابوالحسن نغمی اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر اپنی کتاب ’سعادت حسن منٹو: ذاتی یادداشتوں پر مبنی اوراق‘ میں لکھتے ہیں کہ ’منٹو صاحب کو غالب سے شدید جذباتی وابستگی تھی۔ انہیں غالب پر کبھی کبھی اس قدر پیار آتا تھا کہ وہ فرط محبت سے انہیں گالیاں دیا کرتے تھے، وہ گالیاں فحش نہیں ہوتی تھیں وہ غالب کو فرط محبت سے ’کمینہ‘ کہا کرتے تھے۔‘

منٹو کو ہمیشہ ہی سے مرزا غالب سے عقیدت اور محبت رہی ہے۔ ان کے ایک افسانے ’آرٹسٹ لوگ‘ میں منٹو کا ایک کردار غالب کے بارے میں کہتا ہے: ’غالب کے سوا اور کون ہو سکتا ہے جو انسان کے جذبات کی ترجمانی کر سکے؟‘

منٹو کی غالب سے وابستگی کا پتہ ان کی کتابوں کے ناموں سے بھی چلتا ہے، جن میں ’زحمتِ مہرِ درخشاں‘ اور ’نمرود کی خدائی‘ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ منٹو نے کئی مضامین اور افسانوں کے نام بھی غالب کے مصرعوں سے اخذ کیے۔

یہی نہیں بلکہ منٹو نے غالب پر کم از کم چھ تحریریں چھوڑی ہیں۔ شمس الحق عثمانی نے اپنی کتاب ’غالب اور منٹو‘ میں ان میں سے پانچ کو شامل کیا ہے: ’غالب اور سرکاری ملازمت،‘ ’آگرہ میں مرزا نوشہ کی زندگی،‘ ’مرزا غالب کی حشمت خاں کے گھر دعوت‘ ’غالب، چودھویں اور حشمت خاں،‘ ’مرزا نوشہ اور چودھویں۔‘

لیکن ان کے علاوہ بھی منٹو کی غالب پر ایک تحریر ہے، ’قرض کی پیتے تھے مے۔۔۔‘ اس افسانے میں منٹو نے غالب پر چلنے والے قرض نادہندگی کے مقدمے کا احوال بیان کیا ہے۔ مقدمے کے قاضی غالب کے دوست مفتی صدر الدین آزردہ ہیں۔

ان سب کے علاوہ ظاہر ہے کہ منٹو نے ’غالب‘ فلم کا سکرپٹ بھی لکھا تھا۔ یہ سکرپٹ، جسے شاید منٹو نے بمبئی سے پاکستان آتے وقت سہراب مودی کو فروخت کر دیا ہو گا، محفوظ نہیں رہ سکا، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی کہانی کو فلم ساز اور اس فلم کے مکالمہ نویس اور اردو کے ایک اور چوٹی کے افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے بعد میں کتنا بدل دیا ہو گا۔

لیکن اس فلم کی کہانی منٹو کے تین افسانوں سے ماخوذ لگتی ہے، ’مرزا نوشہ اور چودھویں،‘ ’مرزا غالب کی حشمت خاں کے گھر دعوت‘ ’غالب، چودھویں اور حشمت خاں۔‘

منٹو نے احمد ندیم قاسمی کے نام کم از کم چار خطوں میں اس سکرپٹ کا ذکر کیا ہے۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں:

’قصہ یہ ہے کہ میں غالب پر ایک فلمی افسانہ لکھنے والا ہوں۔ کچھ مواد میں نے جمع کر لیا ہے، اور کچھ ابھی جمع کرنا ہے۔ مجھے امید ہے افسانہ دلچسپ ہو جائے گا۔ یہ بات اپنے تک ہی رکھیے گا۔‘

رازداری کی تاکید سے پتہ چلتا ہے کہ منٹو کے نزدیک اس پروجیکٹ کی کتنی اہمیت تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی اور کو اس کی بھنک پڑے اور وہ اس خیال کو لے اڑے۔

غالب اور منٹو بہت مختلف قسم کے فنکار تھے۔ غالب خیال کی دنیا کے باسی تھے، ان کی شعری دنیا کا عام دنیا کے مسائل سے کم ہی تعلق رہا ہے۔ وہ زیادہ تر تجریدی تصورات کو موضوع بناتے ہیں اور زمین و آسمان، عدم اور وجود، انسان اور کائنات کو ایک ہی ہلے میں قلابے میں بھر دیتے ہیں۔

اس کے مقابلے پر منٹو زمین پر رہنے والے فنکار ہیں۔ ان کے دور میں تجریدی اور علامتی قسم کے ادب کا آغاز ہو چکا تھا، اور خود منٹو نے بھی ایک آدھ جگہ اس انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے، مگر ان کا عمومی مرکزہ انسان کے باطن کے اندھیرے میں چھپی حقیقتوں کو زندگی کے حقیقی واقعات اور حادثات کی روشنی میں اجاگر کرنا ہے۔

گویا اگر اوور سمپلیفائی کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ غالب کا موضوع تخیل ہے، کا منٹو جیتی جاگتی زندگی۔ 

شاید مزاج اور لہجوں میں یہی مغائرت اور تضاد تھا کہ منٹو مقناطیس کے مخالف قطبوں کی طرح ان کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ 

البتہ ایک مماثلت بھی ملتی ہے، یعنی ’قرض کی مے۔‘ غالب اور منٹو دونوں زندگی بھر اس لت کے ہاتھوں خوار ہوئے۔ 

فلمی سکرپٹ

فلم کے سکرپٹ کی بنیاد منٹو کا افسانہ ’مرزا نوشہ اور چودھویں‘ ہے۔ منٹو پڑھنے والے بہت سے لوگوں نے شاید اس افسانے کا ذکر تک نہ سنا ہو۔ یہ افسانہ منٹو کے مشہور افسانوں میں شامل نہیں ہے، ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اس کی فضا گھڑی ہوئی، مکالمے ٹھس اور کہانی بےجان ہے۔ لگتا ہے منٹو نے اسے بہت عجلت میں، اور شاید ایک ہی نشست میں لکھا تھا، اور بعد میں اس پر نظرثانی کا کرنے بھی موقع نہیں ملا۔ 

افسانے کی کہانی وہی فلم ’غالب‘ والی ہے۔ فلم کی طرح اس افسانے کا مرکزی کردار بھی ایک طوائف ’چودھویں‘ ہے جو غالب کے کلام کی دیوانی ہے۔ غالب اتفاق سے اس کے کوٹھے پر آ نکلتے ہیں مگر چودھویں کو معلوم نہیں کہ یہ نوجوان دراصل غالب ہے۔ غالب بھی نوچی کے اس انجانے پن سے لطف لیتے ہیں اور اپنی غزل کا پرچہ اس کے پاس چھوڑ کا رخصت ہو جاتے ہیں۔ اور بس۔۔۔ افسانہ یک لخت یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ 

افسانے کا معمولی پن اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ غالب پر لکھنے کے لیے منٹو نے طوائف کا کردار ہی کیوں چنا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ آخر طوائف ہی منٹو کو کیوں ’ہانٹ‘ کرتی ہے؟ 

اس سوال کا جواب مشکل نہیں۔ جیسے خواتین چہرے سے میک اپ اتارنے کے لیے کلینزنگ ملک یا کلینزنگ لوشن استعمال کرتی ہیں، ویسے ہی منٹو طوائف کے کردار کو بطور میک اپ ری موور استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے چہرے پر جمی تہیں اتار کر اس کا اصل روپ سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ آنکھوں کے گوشوں میں کوے کے پنجے جیسی جھریوں، گالوں کی پُھنسیوں اور ناک کے کیل مہاسوں سمیت۔۔۔ جس میں انہیں خاصی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ 

چنانچہ بقول انتظار حسین ’امراؤ جان ادا‘ کے بعد اردو ادب کا طاقتور ترین نسوانی کردار ’ہتک‘ کی سوگندھی ہے۔ اس کے علاوہ ’کالی شلوار‘ کی سلطانہ، ’بابو گوپی ناتھ‘ کی ’زینت،‘ ’ممی‘ کی ممی، اور طوائفوں کے کئی دوسرے کئی جاندار اور یادگار کردار منٹو کے ہاں مل جاتے ہیں۔ 

تو منٹو دراصل انسان کی منافقت، لالچ، مکر و فریب، ریاکاری اور سب سے بڑھ کر دھوکہ دہی کے بارے میں لکھنے کے متمنی تھے۔ اور طوائف کے کوٹھے سے بڑھ کر کون سا ایسا مقام ہو سکتا ہے جہاں یہ ساری بدروئیں ایک جان ہو کر گندے نالے کا روپ اختیار کر لیتی ہیں؟ 

دوسری طرف خود طوائف کی ذات بھی مجموعۂ اضداد ہوا کرتی ہے جن میں سے ایک کی طرف تو منٹو نے خود اشارہ کیا ہے لیکن اس کے علاوہ اس کے اندر اور بھی چپقلشیں، تنازعات اور تناقضات موجود ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو طوائف خود ایک مجسم کنفلکٹ اور چلتی پھرتی آویزش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو نے اسی کے عدسے سے غالب کی زندگی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔ 

منٹو نے قاسمی کے نام خط میں لکھا ہے کہ ’میں غالب کے بارے میں نہ جانے کیا کیا کچھ پڑھ رہا ہوں۔‘ شاید اسی تحقیق کے دوران منٹو کو غالب کے ایک خط میں ’ستم پیشہ ڈومنی‘ کا ذکر ملا۔ ہو سکتا ہے کہ منٹو نے یہ پڑھتے ہی ’ہپ ٹلا‘ کا نعرہ لگایا ہو، کیوں کہ یہ وہ کنجی تھی جس کی مدد سے وہ غالب کی زندگی کو کھولنے کی کوشش کر سکتے تھے۔  

اپنے تین افسانوں اور فلمی سکرپٹ میں منٹو نے یہی کیا ہے۔

فلم غالب کو بنتے بنتے بہت وقت لگ گیا۔ آخر جب 1954 میں فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی تو اس وقت منٹو کو پاکستان آئے ہوئے سات برس بیت گئے تھے۔ یہ فلم پاکستان میں ریلیز نہیں ہوئی، اس لیے منٹو کو اسے دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا، البتہ ان کی خواہش ضرور تھی کہ وہ امرتسر جا کر یہ فلم دیکھ سکیں۔ 

احمد راہی نے لکھا ہے کہ منٹو نے مجھ سے کہا تھا، ’میں ویکھنا چاھندا کہ بیدی نے میرے سکرین پلے نال کی کیتا اے۔‘

افسوس کہ منٹو کو زندگی نے نہ تو امرتسر جانے کا موقع دیا، نہ یہ فلم دیکھنے کا، اور وہ جنوری 1955 کو دنیا ہی سے چل دیے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب