غالب کی مثنوی ’چراغ دیر کا انگریزی ترجمہ بنارس کو خراج تحسین‘

بڑھاپے میں غالب نے اپنے دوست میاں داد خان سیاح کو لکھا کہ ’بنارس الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسے شہر شاذونادر ہی بنائے جاتے ہیں۔ میں اپنی جوانی کے عروج پر وہاں تھا۔ اگر میں اب جوان ہوتا، تو وہاں جا کر رہتا اور واپس نہیں آتا۔‘

انڈیا کو ٹیمپل لیمپ پڑھ کر اپنے آپ کو ایک مذہبی اور ادبی ماضی کی یاد دلانی چاہیے جو اختلافات کے باوجود باہمی احترام پر مبنی تھا (پینگیون/ایمزون بک کور)

مرزا غالب نے فارسی میں بہت شاعری کی لیکن ادب کے افق پر ان کی اردو شاعری اور تحریروں کا غلبہ رہا ہے۔

انگریزی میں دستیاب ان کی زیادہ تر تصانیف بھی اردو کاموں سے متعلق ہیں۔

حال ہی میں سامنے آںے والی معاذ بن بلال کی کتاب ’ٹیمپل لیمپ‘ غالب کی مشہور مثنوی چراغ دیر کا پہلا مکمل انگریزی ترجمہ ہے۔ یہ طویل نظم مرزا غالب نے 1826 میں اس شہر میں قیام کے دوران بنارس پر لکھی تھی۔

ڈاکٹر سلمان فیصل کے الفاظ میں ’غالب کو جب ہم بنارس کی عینک سے دیکھتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر دو چیزیں نظر آتی ہے۔ ایک ان کی مثنوی ’چراغ دیر‘ اور دوسرے ان کے وہ فارسی خطوط جن میں شہر بنارس کے قصیدے پڑھے گئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو مثنوی ’چراغ دیر‘ جن کیفیات اورپس منظر میں لکھی گئی ان کی تشریح اور تفصیل غالب نے اپنے خطوط میں بیان کی ہیں۔ یہ مثنوی کوئی بہت طویل مثنوی نہیں ، بلکہ محض ایک سو آٹھ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی میں غالب نے شہر بنارس کی قصیدہ خوانی کی ہے۔ بنارس اور اہل بنارس کی خوبیوں کا ذکر ہے۔‘

مذہبی تقسیم کے اس دور میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بروقت ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شہر جسے عام طور پر ہندو مقدس سمجھتے ہیں، ایک مسلمان شاعر کے لیے ایک رومانوی اور روحانی گھر بھی ہوسکتا ہے۔ غالب نے ایک بار اپنے دوست منشی ہرگوپال تفتہ کو لکھا تھا کہ ’میں تمام انسانیت کو اپنا خاندان سمجھتا ہوں۔ ہر آدمی، چاہے وہ مسلمان ہو، ہندو ہو یا عیسائی، میرا بھائی ہے۔‘

انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون نگار انگشومن کار لکھتے ہیں کہ ’چراغ دیر کو غالب نے بنارس میں اس وقت لکھا تھا جب وہ برطانوی گورنر جنرل کو اپنی پنشن کے حصول میں درپیش مشکلات کو دور کرنے کے لیے کلکتہ جاتے ہوئے رکے تھے۔‘

’بنارس پہنچنے سے پہلے غالب نے کچھ دن الہ آباد میں گزارے، ایک ایسی جگہ جو انہیں بالکل پسند نہیں تھی۔‘

نواب محمد علی خان کے نام لکھے گئے ایک خط میں غالب نے اس شہر کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’الہ آباد کیسی عجیب جگہ ہے! خدا اس سے چھٹکارا دلائے کیونکہ اس میں نہ تو بیماروں کے لیے شفا ہے اور نہ ہی آدمی کے لیے کوئی چیز قابل ذکر ہے۔‘

اس تجربے کے بعد بنارس کا علاقہ انہیں جنت کا ٹکڑا لگ رہا تھا۔

یہاں پہنچنے کے فوراً بعد غالب کی صحت میں نمایاں بہتری آئی۔ 

اس مثنوی میں انہوں نے جس والہانہ انداز میں بنارس کا ذکر کیا ہے اس سے یہاں کے ذرے ذرے سے ان کی محبت پھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔

مثنوی سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف اس کے حسن و جمال اور ظاہری و باطنی کے مداح ہیں بلکہ وہ بنارس کو قیام عالم کا باعث بھی گردانتے ہیں۔

بنارس جب وہ پہنچے تو اس شہر کو بھی دہلی سا خیال کر کے وہیں رہنے کی خواہش ظاہر کرنے لگے۔ اس مثنوی میں انہوں نے ’بنارس کی پریزادوں‘ کی تعریف کی ہے۔ وہاں کی خوبصورتی کے لیے انہوں نے اس مثنوی میں جو خوبصورت تراکیب تراشی ہیں وہ بے نظیر ہیں۔ اس فارسی مثنوی کے اردو تراجم بھی ہوئے ہیں۔

چراغ دیر کو انیسویں صدی کے بہترین شاعروں میں سے ایک کی جانب سے بنارس کی تعریف کے طور پر پڑھنا چاہیے۔ بنارس جو ایک مقدس ہندو شہر ہے۔

معاذ بن بلال کے مطابق ’بنارس شاعرانہ طور پر غالب کا رومانوی اور روحانی گھر دکھائی دیتا ہے۔ شعر 25 میں غالب نے خدا سے دعا کی ہے کہ وہ شہر کو بری نظروں سے محفوظ رکھے: ’خدا بنارس کو بری نظر سے محفوظ رکھے، یہ آسمانی نعمت ہے، جنت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کتاب انگریزی قارئین کے لیے غالب کے کام کو وسعت دیتی ہے اور ان کی اردو غزلوں سے زیادہ سوانحی اور وضاحتی بھی ہے۔

غالب نے اپنی جوانی میں چراغ دیر لکھی تھی۔

تاہم یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں کہ غالب کی بنارس سے محبت وقت کے ساتھ ختم ہوتی گئی۔

بڑھاپے میں غالب نے اپنے دوست میاں داد خان سیاح کو لکھا کہ ’بنارس الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسے شہر شاذونادر ہی بنائے جاتے ہیں۔ میں اپنی جوانی کے عروج پر وہاں تھا۔ اگر میں اب جوان ہوتا، تو وہاں جا کر رہتا اور واپس نہیں آتا۔‘

’ٹیمپل لیمپ‘ نامی یہ ترجمہ پڑھ کر موجودہ انڈیا کو اپنے کثیر مذہبی اور ادبی ماضی کی یاد آنا چاہیے جو اختلافات کے باوجود باہمی احترام پر مبنی تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب