’عمران خان ہمیں دے دو‘

پاکستان میں حالیہ انتخابی عمل اور ووٹ چوری کے مبینہ الزامات پر جہاں پوری دنیا سے شدید ردعمل آ رہا ہے وہیں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ محبوس رہنما عمران خان کو کشمیریوں کے حوالے کرنے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں۔

نو فروری، 2024 کو عام انتخابات کے اگلے روز پشاور میں ایک لڑکا گاڑی کے سامنے سے گزر رہا ہے، جس پر عمران خان کی تصویر لگی ہوئی ہے (اے ایف پی/ عبدالمجید)

پاکستان میں حالیہ انتخابی عمل اور ووٹ چوری کے الزامات پر جہاں پوری دنیا سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں جموں و کشمیر کے اکثر لوگ محبوس رہنما عمران خان کو کشمیریوں کے حوالے کرنے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں۔

جموں و کشمیر میں اکثریت عمران خان کی دیوانی سمجھی جاتی ہے، جس کا حالیہ ثبوت سوشل میڈیا پر ان کے حق میں درجنوں سپیسز کرنا ہے۔

بیشتر کشمیری برہم ہیں کہ پاکستان کے اداروں نے اسلامی اور جوہری ملک کو جگ ہنسائی کا موجب بنایا اور اب بغیر کسی خوف کے محفلوں میں کہنے لگے ہیں کہ ’شکر ہے کہ ہم اس ملک کا حصہ نہیں بنے۔‘

مگر اس بات سے انکار نہیں کہ کشمیری پاکستان کو ہمیشہ ایک مضبوط ملک دیکھنے کے خواہشمند رہے ہیں چاہیے وہ اس کا حصہ بنے یا نہ بنے، چاہیے وہاں فوجی حکمراں یا جمہوری حکومتیں قائم رہی ہیں۔

ایک انڈیا نواز سیاسی کارکن صمد راجہ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی ایک سپیس میں کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے پاکستان کا وجود اور مضبوطی اہم ہے، اگر ہم اس ملک کا حصہ نہیں ہے تو کیا ہوا، ہمارے مذہبی اور ثقافتی رشتے اتنے گہرے ہیں کہ اگر زخم پاکستانیوں کو لگتے ہیں تو دل ہمارے دکھتے ہیں۔

ووٹ شماری میں مبینہ دھاندلی کی خبروں سے کشمیر میں ان انتخابی دھاندلیوں کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی ہے جو خطے میں مسلح تحریک، ہلاکتوں اور نہ ختم ہونے والی غیر یقنی صورت حال کا باعث بنی ہیں۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان کے بعض صوبے اس سمت پر رواں دواں نہ ہو جس میں تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

آزادی پسند رہنماؤں کے علاوہ قومی دھارے سے جڑی سیاسی جماعتوں نے پاکستان میں ووٹ شماری کے دوران مبینہ دھاندلی کو 1987 کے ان انتخابات سے مشابہت دی جب کشمیری نوجونواں کی تنظیم مسلم یونائیٹد فرنٹ کی ریاستی انتخابات میں بھاری اکثریت سے نشستیں جیتنے کی خبریں آ رہی تھیں کہ ووٹ شماری کے آخری مرحلے کے چند گھنٹوں میں نہ صرف ووٹوں کی گنتی کو بدل دیا گیا تھا بلکہ مف سے وابستہ بیشتر نوجوانوں کو زدوکوب کر کے جیلوں میں بند بھی کر دیا گیا جن میں لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین شامل ہیں۔

انتخابات سے قبل نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے راجیو فاروق اکارڈ کے بعد مسلم یونائیٹد فرنٹ کو انتخابی دھاندلیوں سے ہرا دیا تھا۔ کشمیری اس اکارڈ کو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ سے جوڑ رہے ہیں۔

کشمیری نوجوانوں پر مار دھاڑ اور تشدد کرنے کے بعد جیل کی تہہ خانوں میں انڈیا مخالف مسلح تحریک شروع کرنے کا لائحہ عمل تیار ہواجس کے بارے میں سید صلاح الدین نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’انڈیا کی جمہوریت میں کشمیر کا ووٹ غائب ہے، کشمیر کو مہرے کے طور پر استعمال کرکے ایک بڑی سیاسی دکان چلائی جارہی ہے، انڈیا کشمیر میں نہ جمہوریت چاہتا ہے اور نہ ہمیں آزادی کی تحریک چلانے دے رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جموں و کشمیر میں گذشتہ 70 برسوں میں ہونے والے انتخابات پر ہمیشہ سوالیہ نشان اٹھایا جاتا رہا ہے اور کسی بھی غیر ملکی ادارے نے انہیں صاف و شفاف انتخابی عمل قرار نہیں دیا ہے، بالکل اسی طرح پاکستان میں انتخابی عمل کی شفافیت عالمی میڈیا کا اہم موضوع بنی ہوئی ہے جن میں چند اداروں کی مداخلت اسی طرح بتائی جاتی ہے جس طرح کشمیر میں مرکزی حکومت کی منصوبہ سازی نظر آتی رہی ہے۔

بعض کشمیری رہنماؤں نے، جن میں محبوبہ مفتی شامل ہیں عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود کامیابی ملنے پر سوشل میڈیا پر چند تعریفی جملے لکھنے کی ہمت کی جبکہ فیک ناموں سے ہزاروں کشمیریوں نے مبینہ انتخابی چوری پر بھرپور طریقے سے اپنا غصہ ظاہر کیا، حالانکہ جموں و کشمیر میں موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کی بات کرنا جان جوکھوں والا فعل ہے۔

 کشمیریوں کا ردعمل دیکھ کر بعض ہندوتوا نواز کارکنوں نے سوشل میڈیا پر بڑی سپیسز بنا کر اسے پاکستان مخالف بیانیہ بنانے کی بھرپور کوشش کی تاکہ انہیں اس ملک سے اتنا بد ظن کیا جائے کہ ’کشمیر کے عوام بدل گئے ہیں‘ کا نیا بیانیہ مشتہر کیا جا سکے۔

ظاہر ہے کہ کچھ بی جے پی نواز کشمیریوں کو یہ موقع فراہم ہوا کہ وہ پاکستان کی کشمیر پالیسی، افواج کی جانب سے مسلح بردار بھیجنا یا اب منشیات کی ترسیل کا الزام دے کر پاکستان نواز کشمیریوں میں نفرت پیدا کر کے انہیں مین سٹریم میں لانے کی جانب مایل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انتخابی دھاندلیوں کا یہ عمل کہاں نہیں ہوا، وہ چاہے مصر ہو الجیریا ہو، انڈیا ہو یا پاکستان مگر جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم کی بات کتنی درست لگتی ہے کہ ’جن لوگوں کا سیاست میں جمہوری طرزعمل سے آگے بڑھنے کا راستہ ووٹ چوری یا دھاندلیوں سے روکا جاتا ہے وہ لوگ ہمیشہ انتہا پسندی کا راستہ چننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا کی رسائی سے عوام کی سوچ کو تبدیل کرنے کا عمل بہت آسان ہو گیا ہے۔ اس کا ثبوت واضح ہے کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال سے انتخابات میں برتری حاصل کی ہے، پارٹی کی قیادت سمیت بیشتر امیدواروں کو جیلوں میں بند رکھ کر مہم چلانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

اسی طرح سے چاہے کشمیریوں کی سوچ تبدیل کرنا ہو یا انڈیا کی سپیسز میں اپوزیشن کی جماعتوں کے خلاف ایک نیا بیانیہ پہنچانا ہو سوشل میڈیا اپنا بھرپور کام کر رہا ہے۔ ان سپیسز میں کشمیری جہاں انڈیا پاکستان دونوں ملکوں کی کشمیر پالیسی اور انتخابی عمل کو منیج کرنے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے جا رہے ہیں، وہیں بیشتر کشمیریوں نے پاکستانی ادارے کو یہ پیغامات بھی بھیجے ہیں کہ ’عمران خان کو ہمیں دے دو۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ