انڈین بندرگاہ کے مزدوروں کا اسرائیل جانے والے ہتھیاروں کی کھیپ کا بائیکاٹ

فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یونین اسرائیل اسلحہ لے جانے والے جہازوں کا بھی بائیکاٹ کرے گی۔

ایک مزدور 11 جنوری 2024 کو انڈیا کے مندرا پورٹ پر لنگر انداز مال بردار بحری جہاز کے پاس موجود ہے۔ یہ بندرگاہ اڈانی گروپ کی ملکیت ہے (اے ایف پی)

انڈیا کی 11 بڑی بندرگاہوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی نمائندہ ایک ٹریڈ یونین کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں جاری جارحیت کے دوران اسرائیل ہتھیار لے جانے والے جہازوں پر کام نہیں کرے گی۔

واٹر ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن آف انڈیا نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے اسرائیل یا کسی بھی دوسرے ملک کا ’ہتھیاروں سے بھرا کارگو لوڈ کرنے یا اتارنے سے انکار‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں ’فلسطین میں جنگ‘ کے لیے فوجی سازوسامان ہو سکتا ہے۔

یونین کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ہم بندرگاہ کے مزدور، جو مزدور یونینوں کا حصہ ہیں، ہمیشہ جنگ اور خواتین اور بچوں جیسے بے گناہ لوگوں کے قتل کے خلاف کھڑے رہیں گے۔‘

یہ یونین انڈیا میں 11 سرکاری بندرگاہوں پر 3500 سے زیادہ مزدوروں کی نمائندگی کرتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’جنگ میں دھماکوں سے عورتوں اور بچوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ والدین ہر جگہ ہونے والے بم دھماکوں میں مرنے والے اپنے بچوں کو پہچان نہیں پا رہے۔‘

سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے میں تقریبا 1200 اسرائیلی مارے گئے اور سینکڑوں شہریوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، جس کے بعد اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا اور وقت سے غزہ کی پٹی پر اس کی جارحیت اب بھی جاری ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ چار ماہ سے جاری جارحیت میں اب تک 29 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے جبکہ ہزاروں بے گناہ شہریوں کو بھوک کا سامنا ہے اور پٹی کا بیشتر شہری انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔

مڈل ایسٹ آئی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واٹر ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ٹی نریندر راؤ نے کہا کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ یا گولہ بارود یا ہتھیاروں سے لیس سامان لے جانے والے کسی بھی جہاز کو سنبھالنے کا ’بائیکاٹ‘کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اس مرحلے پر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یہ ایک علامتی اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے یونین کے کارکن ابھی تک اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل میں شامل نہیں ہوئے۔

یہ بائیکاٹ اس وقت ہوا جب دی انڈیپینڈنٹ نے اس سے قبل خبر دی تھی کہ انڈیا میں ملبوسات بنانے والی ایک فرم نے ’انسانی بنیادوں‘ پر اسرائیلی پولیس کی وردی بنانے کے مزید آرڈرز روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ ٹریڈ یونین ایک عالمی تنظیم ورلڈ فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز سے وابستہ ہے اور اسے ایتھنز میں ایک حالیہ اجلاس میں یہ اقدام اٹھانے کی ترغیب ملی جہاں یونین کے متعدد نمائندوں نے دوران جارحیت جان سے جانے والے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا۔

یونین نے انڈین نیوز ویب سائٹ دی وائر کو بتایا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنا کردار ادا کریں گے اور ہتھیاروں سے لدے ایسے کسی بھی کنٹینر کو ہینڈل نہیں کریں گے، جو اسرائیل کو مزید خواتین اور بچے مارنے میں مدد دے گا، جیسا کہ ہم ہر روز خبروں میں دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔‘

اس سے چند روز قبل یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی فوج کو 20 انڈین ساختہ ہرمز 900 ڈرون موصول ہوئے جو محصور پٹی پر استعمال کیے گئے ہیں۔

کئی ریاستوں میں 12 بندرگاہیں چلانے والے اڈانی گروپ کے ایک ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ یہ ڈرون اسرائیل بھیجے گئے تھے۔

اس سودے کو انڈیا یا اسرائیل نے عوامی طور پر تسلیم نہیں کیا، جن کے آپس میں قریبی تعلقات ہیں، حالانکہ انڈیا تل ابیب کے ان بین الاقوامی اتحادیوں میں شامل ہے جنہوں نے جنگ کے دو ریاستی حل کا مطالبہ کیا ہے۔

دوران جارحیت شدید قلت میں انڈیا فلسطینی مزدوروں کی جگہ اسرائیل بھیجے جانے والے تارکین وطن مزدوروں کی بھرتی اور تربیت بھی کرتا رہا ہے۔

آنے والے مہینوں میں اسرائیل کے لیے 10 ہزار سے 20 کارکنوں کو بھرتی کرنے کے لیے انڈین شہروں میں بھرتی مہم چل رہی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا