اسرائیل نے رمضان تک حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی رہائی نہ ہونے پر غزہ کے علاقے رفح پر حملہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بینی گانٹز نے اتوار کو مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی یہودی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ ’دنیا کو اس بات کا علم ہونا چاہیے، حماس کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اگر رمضان تک ہمارے یرغمالی گھر نہیں آتے تو تمام مقامات پر لڑائی جاری رہے گی جن میں رفح بھی شامل ہے۔‘
اسی کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے بھی ’مکمل کامیابی تک کام جاری رکھنے‘ کے بیان کو دہرایا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں اور ایندھن کی قلت کے باعث غزہ کا دوسرا سب سے بڑا فعال ہسپتال مکمل طور پر بند ہو گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے بتایا کہ ’جنوبی شہر خان یونس میں واقع نصر ہسپتال اتوار کی صبح بند ہو گیا۔‘
غزہ میں تباہ حال صحت کے نظام کو یہ تازہ ترین دھچکا ایک ایسے وقت پر لگا ہے جب اسرائیل جنوبی شہر رفح پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، جہاں اب 10 لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینی انتہائی برے حالات میں رہ رہے ہیں۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں اب تک 28 ہزار 985 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
جبکہ اسرائیل کی فضائی اور زمینی جارحیت نے غزہ کے بیشتر حصے کو تباہ اور اس کے تقریباً تمام باشندوں کو بے گھر کر دیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ’نصر ہسپتال میں سینکڑوں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے اور کچھ نے خود کو طبی عملہ ظاہر کیا ہوا تھا۔‘
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ’ہسپتال میں اب بھی زخموں اور متعدد مریضوں موجود ہیں، لیکن وہاں بجلی نہیں ہے اور ان سب کے علاج کے لیے موجود عملہ ناکافی ہے۔‘
محکمہ صحت کے بیان میں کہا گیا کہ ’یہ ہسپتال مکمل طور پر بند ہو گیا ہے۔ اس وقت ہسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والی صرف چار میڈیکل ٹیمیں ہیں جن میں 25 افراد کا عملہ شامل ہے۔‘
اشرف القدرہ نے کہا کہ ’ہسپتال کو پانی کی فراہمی روک گئی ہے کیونکہ جنریٹرز تین دن سے کام نہیں کر رہے تھے، سیوریج کا پانی ایمرجنسی کمروں میں بھر گیا ہے اور باقی عملے کے پاس انتہائی نگہداشت کے مریضوں کے علاج کا کوئی راستہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آکسیجن کی فراہمی میں کمی، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کم از کم سات مریضوں کی موت واقع ہوئی ہے۔‘
غزہ کے زیادہ تر ہسپتال اسرائیلی حملوں اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے 23 لاکھ آبادی کو صحت کی مناسب سہولیات میسر نہیں۔
بین الاقوامی برادری نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ ہسپتالوں کو بین الاقوامی قانون کے مطابق تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے عملے کو ہسپتال تک رسائی دے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریس نے کہا کہ ’گذشتہ روز اور ایک دن پہلے عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کو مریضوں کی حالت اور نازک طبی ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، باوجود اس کے کہ وہ ایندھن پہنچانے کے لیے ہسپتال کے احاطے میں پہنچے تھے۔‘
اسرائیل کے حملے غزہ کے شمال میں شروع ہوئے تھے اور اب جنوب کی جانب بڑھ گئے ہیں۔ بہت سے فلسطینی خان یونس اور مصر کی سرحد سے ملحقہ غزہ کے قصبے رفح میں خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی کو رفح کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور اسرائیل کے شہر پر حملہ کرنے کے منصوبوں نے بین الاقوامی تشویش کو جنم دیا ہے۔
اس تشویش کا اظہار کرنے والوں میں امریکہ بھی شامل ہے جو، اسرائیل کا اتحادی اور ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔
مقامی رہائشیوں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے اتوار کے روز رفح کے دو علاقوں پر حملے کیے جن میں مصر کی سرحد کے قریب ایک خالی عمارت بھی شامل ہے۔
مقامی طبی عملے کا کہنا ہے کہ ان دو حملوں میں سے دوسرا حملہ ایک کھلی جگہ پر کیا گیا جہاں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے جس میں چھ لوگ جان سے گئے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔