جاپان کا ’ڈیجیٹل نومیڈ ویزا‘ متعارف کرنے اعلان

جاپان نے دنیا بھر سے کام کرنے والے ان ریموٹ ورکرز یا ڈیجیٹل نومیڈز کے لیے چھ ماہ کا ویزا متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جن کی سالانہ آمدنی کم از کم ایک کروڑ ین ہے۔

سات دسمبر 2018 کو ٹوکیو میں پارلیمنٹ کے سامنے مزید غیر ملکی کارکنوں کو جاپان آنے کی اجازت دینے کے بل کے خلاف ایک ریلی میں شریک مظاہرین (کازوہیرو نوگی/اے ایف پی)

جاپان نے دنیا بھر سے کام کرنے والے ان ریموٹ ورکرز یا ڈیجیٹل نومیڈز کے لیے چھ ماہ کا ویزا متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جن کی سالانہ آمدنی کم از کم ایک کروڑ ین ہے۔

جاپان کی امیگریشن سروسز ایجنسی (آئی ایس اے) نے رواں ماہ کے آغاز میں اس اقدام کا اعلان کیا تھا جس کی شروعات مارچ کے اختتام تک متوقع ہے۔

مقامی اخبار دا جاپان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 49 ممالک اور خطوں کے ڈیجیٹل ورکرز اس سکیم کے اہل ہیں۔

اہل افراد سیلف ایمپلائڈ سمیت ’سپیسیفائیڈ ایکٹیویٹی‘ ویزا کیٹیگری کے تحت جاپان میں رہ سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے آبائی ممالک کے امریکہ، آسٹریلیا اور سنگاپور کی طرح جاپان کے ساتھ ٹیکس اور ویزا چھوٹ کے معاہدے ہوں۔

تاہم جاپان میں ڈیجیٹل ورکرز کے لیے نئے متعارف کرائے گئے چھ ماہ کے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد فوری طور پر اس میں توسیع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ٹریول ویب سائٹ ’ٹریول ڈیلی میڈیا‘ کے مطابق دوبارہ درخواست دینے کے خواہش مند افراد جاپان سے روانگی کے چھ ماہ بعد دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں۔

آئی ایس اے کے مطابق ویزا رکھنے والوں کو اجازت ہے کہ وہ اپنے شریک حیات اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ جاپان لے جا سکیں گے۔ تاہم ان کے پاس پرائیویٹ ہیلتھ انشورنس ہونا ضروری ہے مزید برآں یہ ویزا رکھنے والے افراد کو جاپان میں سرٹیفکیٹ یا رہائشی کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا۔

اس سکیم کے بعد جاپان ایسٹونیا، میکسیکو، پرتگال اور تائیوان سمیت کئی ممالک اور خطوں کے ایک بڑھتے ہوئے گروپ کا حصہ بن گیا ہے جو ڈیجیٹل ورکرز کے لیے اسی طرح کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔

سٹریٹ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جاپان کے اس اقدام کا مقصد ایک وسیع حکمت عملی کے تحت زیادہ ریموٹ ورکرز کو راغب کرنا اور اپنی سیاحت کے شعبے کو متحرک کرنا ہے۔

جاپان کا ماننا ہے کہ ڈیجیٹل ورکرز ملک کی جدت کاری میں حصہ ڈالیں گے اور ملک کی عمر رسیدہ افرادی قوت کو متحرک کریں گے۔

دریں اثنا جاپان کی طرف سے ڈیجیٹل نومیڈز ویزا کے اعلان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈ اِٹ پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے جہاں سینکڑوں صارفین اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔

تاہم بہت سے ممکنہ ڈیجیٹل ورکرز کے مطابق یہ نیا ویزا، دوسرے ڈیجیٹل نومیڈز ویزوں کی طرح، قابلیت کے مشکل تقاضے عائد کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جاپان ڈیجیٹل نومیڈز ایسوسی ایشن حکومت سے زیادہ فعال موقف اپنانے اور 2020 سے مقبولیت حاصل کرنے والے طریقہ کار کو باقاعدہ بنانے کی وکالت کر رہی ہے۔

اے بی سی نیوز کے مطابق ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو آفیسر ریو اوسیرا نے نئے متعارف کرائے گئے ڈیجیٹل نومیڈ ویزا کی حمایت کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے دیگر ایشیائی ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی زیادہ نرم پالیسیوں کی روشنی میں مشکل شرائط میں کمی کی حمایت بھی کی۔

ریو اوسیرا نے کہا کہ ’یہ اس وقت مسابقتی دوڑ نہیں ہے لیکن جاپان اب واقعی اس حوالے سے ایک مقبول منزل ہے۔ ہم اب بھی حکومت سے بات کر رہے ہیں۔ یہ واقعی ایک بڑا قدم ہے لیکن یہ ابھی بھی ناکافی ہے۔‘

ریموٹ ورکرز کے ڈیٹا بیس اور تین لاکھ سے زیادہ چیک انز والی ویب سائٹ ’نومیڈ لسٹ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان 2023 میں ریمورٹ ورکرز کے لیے سب سے تیزی سے مقبول ہونی والی منزل کے طور پر ابھرا جیسا کہ سی این بی سی کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں آسٹریلیا جاپان ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر شیرو آرمسٹرانگ نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ان کے پاس ہول سیل اور اوپن امیگریشن نہیں ہے جس کے ہم عادی ہیں یا  جسے ہم تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن جاپان میں تقریباً 20 لاکھ غیر ملکی یا مختلف ویزوں پر مقیم غیر ملکی شہری مقیم ہیں اور اتنی بڑی تعداد کوئی معمولی بات نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ان پر بڑا عوامی قرض ہے۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق حکومتی قرضہ (ترقی کی رفتار کو) کم کرتا ہے۔ انہیں آمدنی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لہذا اگر وہ (کم ٹیکس کی شرح) پر غیر ملکیوں کو اپنے ملک لاتے ہیں تو یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہوگا کہ مقامی آبادی کیسا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔‘

اس کے برعکس جاپان کے پڑوسی ملک جنوبی کوریا میں ڈیجیٹل نومیڈ ویزا کے درخواست دہندگان کی سالانہ آمدنی 84.96 ملین وون  سے زیادہ ہونی چاہیے اور وہ کسی غیر ملکی کمپنی میں ملازم ہوں جس سے وہ اور ان کے اہل خانہ کو دو سال تک ملک میں رہنے کی اجازت ہو گی۔

ملائیشیا سالانہ ساڑھے 32 ہزار ڈالر سے زیادہ کمانے والے افراد کو دو سال تک نومیڈ ویزا پیش کرتا ہے بشرطیکہ وہ ڈیجیٹل شعبوں جیسے کہ آئی ٹی اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں کام کرتے ہوں اور ان کے پاس ہیلتھ انشورنس بھی ہو۔

تائیوان کا ’گولڈ کارڈ‘ واضح طور پر کوئی ڈیجیٹل نومیڈ ویزا نہیں ہے لیکن درخواست دہندگان کو ان کی پیشہ ورانہ مہارتوں پر جانچنے کے ساتھ تین سال کے لیے لامحدود داخلے، کام اور رہائش کے حقوق فراہم کرتا ہے۔

تھائی لینڈ کا طویل مدتی رہائشی ویزا 10 سال تک ڈیجیٹل ورکرز کو ملک میں رہنے کی اجازت دیتا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی