’میں اپنے گھر سے نکلنے سے ڈرتا ہوں‘: برطانیہ میں اسلاموفوبیا کے واقعات میں اضافہ

برطانوی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اندھیرا پھیلنے کے بعد وہ اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں فلسطین کی حمایت کرنے پر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے۔

25 اگست، 2016 کی اس تصویر میں برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک خاتون اسلامو فوبیا کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں شریک ہیں(اے ایف پی)

برطانیہ میں مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ اندھیرا پھیلنے کے بعد اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں، جبکہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد اسلاموفوبیا کے واقعات میں اضافہ ہوا۔

لندن کے خیراتی ادارے اسلاموفوبیا رسپانس یونٹ (آئی آر یو) کا کہنا ہے کہ بہت سے واقعات میں فلسطین کی حمایت کرنے کی وجہ سے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

دی انڈپینڈنٹ سے بات کرنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی پرچم آویزاں کرنے کے بعد ان کے گھروں کی کھڑکیوں پر اینٹیں پھینکی گئی ہیں جبکہ ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ فلسطینی بیج آویزاں کرنے کے بعد سکول میں اساتذہ نے ان سے پوچھ گچھ کی۔

آئی آر یو کے بقول اسرائیل میں حماس کے جان لیوا حملوں، جن میں1200 سے زائد افراد مارے گئے، کے بعد اکتوبر میں اسلامو فوبیا کی رپورٹوں میں 365 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

برطانیہ کی یہودی کمیونٹی کو یہود مخالف واقعات میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا، کمیونٹی سکیورٹی ٹرسٹ چیریٹی نے اس ماہ کے شروع میں انکشاف کیا تھا کہ 2023 میں ریکارڈ تعداد دیکھی گئی، جس میں سات اکتوبر سے اب تک 2،699 واقعات بھی شامل ہیں۔

کیا آپ اس سے متاثر ہوئے ہیں؟ [email protected] پر ای میل کریں۔

آئی آر یو کے سی ای او ماجد اقبال نے کہا کہ ’اکتوبر 2023 کے بعد سے آئی آر یو نے یونٹ کو ملنے والی رپورٹوں میں مسلسل اضافہ دیکھا ہے۔ یہ واضح ہے کہ یہ اب ایک طویل مدتی رجحان کی شکل اختیار کر رہا ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ آئی آر یو پریس اور سیاست دانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی جائز سرگرمی کو، اس کے ساتھ برطانوی مسلمانوں کو بدنام نہ کریں اور اسلامو فوبیا کے سنگین سماجی مسئلے میں مبتلا ہونے سے گریز کریں۔‘

یہ اعداد و شمار اس ہفتے کے شروع میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات کو ریکارڈ کرنے والے ایک اور ادارے ٹیل ماما کی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ سات اکتوبر سے سات فروری کے درمیان 2010 واقعات پیش آئے، جو گذشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران رپورٹ ہونے والے 600 واقعات سے تین گنا زیادہ ہیں۔

یہ دونوں اعداد و شمار اسی ہفتے سامنے آئے ہیں جب لندن کے میئر صادق خان کے بارے میں اسلامو فوبک قرار دے کر مذمت کیے جانے والے بیان کے بعد ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمنٹ لی اینڈرسن کو کنزرویٹو پارٹی نے معطل کر دیا تھا۔

آئی آر یو کو رپورٹ کیے گئے کیسز میں ایک 17 سالہ لڑکے کا کیس بھی شامل ہے جن کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اپنے سکول بیگ پر فلسطین کا بیج لگایا تو اساتذہ نے ان سے ان کے عقیدے اور ’حماس کے بارے میں ان کی سمجھ بوجھ‘ کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔

 لندن سے تعلق رکھنے والے 13ویں جماعت کے طالب علم کا کہنا تھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے ان پر انگزائٹی کا حملہ ہوا اور امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا بیج ہٹانے کے لیے پڑھائی کے دوران کھینچنے کے واقعات سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ میں ایک مسلمان تھا، جس سے مجھے ایسا لگا کہ میں کچھ غلط کر رہا ہوں۔‘

 ان کا کہنا تھا کہ ’دھمکی آمیز پوچھ گچھ، جس کا مجھے سامنا کرنا پڑا، کے بعد نشانہ بنائے جانے کا یہ احساس شدت اختیار کر گیا۔‘

طالب علم کو توقع تھی کہ دو اساتذہ کے ساتھ ایک سیف گارڈ میٹنگ کے دوران  وہ اپنی ذہنی صحت کے بارے میں بات کر سکیں گے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے ان سے ’کیا آپ مسلمان ہیں؟، کیا آپ مسجد جاتے ہیں، اور کیا آپ کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے‘ جیسے سوالات پوچھے گئے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان سے ’پوچھ گچھ‘ حماس کے بارے میں ان کی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر کی گئی۔

آئی آر یو کو رپورٹ کیے گئے ایک دوسرے واقعے میں ایک 32 سالہ ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ایک حملے کے بعد اپنے گھر سے نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ حملہ فلسطین کے لیے ان کی حمایت کی وجہ سے ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پانچ فروری کو یہ فرد ایک زوردار دھماکے کی وجہ سے بیدار ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ مانچسٹر میں ان کے گھر کی کھڑکی ایک بڑا پتھر مار کر توڑ دی گئی ہے جس پر فلسطینی پرچم آویزاں تھا۔

اس واقعہ کی وجہ سے وہ سو نہیں سکے اور تناؤ کی وجہ سے انہیں کام سے دو ہفتے کی چھٹی لینی پڑی۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ رہا  اور اس نے میری صحت پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ میں سو نہیں رہا ہوں۔ میں صبح چار یا پانچ بجے تک صرف چلتا پھرتا رہتا ہوں کیونکہ میں اس پراپرٹی میں سونے سے بہت ڈرتا ہوں۔ اب میں غروب آفتاب کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتا، کیوں کہ میں بہت خوفزدہ ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں جلد ہی تناؤ کے باعث دو ہفتے کی چھٹی کے بعد کام پر واپس جاؤں گا لیکن میں اس بارے میں بہت فکرمند ہوں کہ اس واقعے سے بطور ڈاکٹر میری پیشہ ورانہ کارکردگی پر کیا اثر پڑے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں مریضوں کے ساتھ کیسے کام کروں گا جب کہ میں سو نہیں پاتا۔‘

اگر آپ اسلاموفوبیا کا شکار ہوئے ہیں تو آپ [email protected] ای میل کرکے یا 02039046555 پر کال کرکے آئی آر یو کو اس کی اطلاع دے سکتے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ