ذوالفقار علی بھٹو کو ’فیئر ٹرائل‘ کا موقع نہیں ملا: سپریم کورٹ

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے متفقہ رائے دی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ’فیئر ٹرائل‘ کا موقع نہیں ملا۔

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر سپریم کورٹ آف پاکستان آج اپنی رائے سناتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ’فیئر ٹرائل‘ کا موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پہ سماعت مکمل ہونے پر چار مارچ کو رائے محفوظ کی تھی۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی فیصلے میں ٹرائل کا طریقہ کار مکمل نہیں تھا، انہیں فئیر ٹرائل نہیں دیا گیا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے فیصلے کو ختم نہیں کر سکتے کیوں کہ اپیل کے اوپر نظرثانی نہیں ہو سکتی۔

یہ نو رکنی بینچ کی متفقہ رائے ہے کہ ہمیں مستقبل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ججز بلا تفریق فیصلہ کرتے ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے اور عدلیہ  ماضی کی غلطی کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

سپریم کورٹ کی رائے دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں ہوا، صدر مملکت نے ریفرنس بھیجا جسے بعد کی حکومتوں نے واپس نہیں لیا، یہ معاملہ مفاد عامہ کا ہے، تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں سماعت اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری کا ردعمل

صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخی فیصلہ سنا دیا ہے۔ ہمیں اس کے تفصیلی فیصلے کا انتظار رہے گا۔ جس کے بعد ہم اپنے وکلا سے بات کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ عدالت نے یہ مانا ہے کہ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔

بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کے بھیجے گئے ریفرنس کے جواب نے عدالت نے یہ مانا ہے قائد عوام کو فیئر ٹرائل نہیں ملا اور ابتدائی کلمات میں عدلیہ نے یہ واضح کہا کہ ہم اپنے ماضی کی غلطیاں درست کرنے کے لیے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک تاریخی قدم جو آج اٹھایا گیا، امید یہ ہے کہ 44 سال بعد اب جبکہ تاریخ درست ہونے جا رہی ہے، ہم انشااللہ اس فیصلے کی وجہ سے آگے جا کر اب ہم ترقی کر سکیں گے، وہ چاہے ہمارا جمہوری نظام ہو یا عدالتی نظام ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا داغ تھا عدالت میں جس کی وجہ سے بڑا مشکل تھا پاکستان کا عام آدمی یہ سمجھے یہ ان کو اس ادارے سے انصاف ملے گا۔

بلاول نے کہا ’میں تمام جج صاحبان، تمام وکلا کا شکر گزار ہوں۔ انشااللہ اس فیصلے کے بعد امید رکھتے ہیں کہ ہمارا نظام درست سمت میں چلنا شروع ہو جائے گا۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف کا سپریم کورٹ کی رائے پر ردعمل

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے آنے کے بعد چییرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، نامزد صدر آصف علی زرداری، پی پی پی قیادت اور کارکنوں کو مبارک مبارکباد پیش کی ہے۔ 

بدھ کو ایوان وزیر اعظم سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تاریخی غلطی کا ازالہ ممکن نہیں لیکن سنگین غلطی کے اعتراف سے ایک نئی تاریخ، ایک نئی روایت قائم ہوئی ہے۔ عدالت سے ہونے والی زیادتی کو عدالت کا درست کرنا مثبت پیش رفت ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کی متفقہ رائے قومی سطح پر تاریخ کو درست تناظر میں سمجھنے میں مددگار ہو گی۔ ماضی کی غلطیوں کی درستگی اور تلخیوں کے خاتمہ سے ہی قومی اتحاد اور ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔‘

ریفرنس میں پانچ سوالوں پر عدالتی معاونین اور فریقین کے وکلا کے دلائل سنے گئے۔

ریفرنس کے پانچ بنیادی سوالات کیا ہیں؟

سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی ہے۔

  1. ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
  2. کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
  3. کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟
  4. کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
  5. کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے نو رکنی لارجر بینچ

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس میں دلائل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بنچ نے سنا۔

نو رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت گذشتہ برس 12 دسمبر کو کی اور رواں ماہ چار مارچ 2024 تک کُل آٹھ سماعتیں کیں۔

پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی 12 سالوں میں 14 سماعتیں ہوئیں۔

جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی  آفریدی، جسٹس امین الدین جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی نو رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔

عدالت نے اس کیس میں مخدوم علی خان کو عدالتی معاون مقرر کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ریکارڈ ایسا ہی ظاہر کرتا ہے کہ بھٹو کیس میں بیرونی دباؤ بھی تھا، اصل سوال عدلیہ پر عوامی اعتماد کا ہے، زوالفقار علی بھٹو کیس غیر محفوظ فیصلہ ہے، میری رائے یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے ہونا چاہیے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس کیس میں سوالات اٹھائے تھے کہ ’اپیل میں سزا کم کرنے کی استدعا نہ بھی ہو تو جج کو انصاف کی فراہمی کو دیکھنا ہوتا ہے، کیا یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا کیس تھا جس میں ٹرائل ہائی کورٹ نے کیا اور ایک اپیل کا حق چھینا؟ کیا سزائے موت چار تین کے تناسب سے دی جا سکتی ہے؟

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے بھی دے سکتی ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ عدالت ایسا کر سکتی ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کے لیے آرٹیکل 187 کا استعمال کر سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے وکیل نے مزید دلائل دیے کہ ’جب بھٹو کے خلاف کیس چلایا گیا اس وقت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کررہے تھے، ملک میں مارشل لا نافذ تھا، بھٹو کیس میں فیئر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا، احمد رضا قصوری پر حملوں کے 6 مقدمات درج ہوئے اور کسی ایف آئی آر میں بھٹو کو نامزد نہیں کیا گیا۔‘

مقدمے کا پس منظر

مارچ 1978 میں لاہور کی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت وکیل احمد رضا قصوری کے والد (رکن ہارلیمنٹ) کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں پھانسی کی سزاسنائی تھی۔

ستمبر 1977 میں انہیں گرفتار کیا گیا اور چھ ماہ ٹرائل جاری رہا۔

سزائے موت کے خلاف اپیل میں فروری 1979 میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے چار تین کی نسبت سے ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو برقرار رکھا، چار ججوں نے پھانسی دینے کے حق میں اور تین ججوں نے پھانسی کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے دو ماہ بعد اس پر عمل درآمد کر دیا گیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ پر جنرل ضیاالحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ تھا۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو جبکہ 11سال قبل آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جس کے بعد مزید کوئی سماعت نہیں ہو سکی تھی۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی پانچ سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان