پاکستان کس ہے اور کون پاکستان کا؟ اس سوال کے جواب کی تلاش آسان نہیں۔ لیکن اس سوال نے آخر مجھے آج پھر کیوں ستانا شروع کیا، چلیں آپ کو بھی اس کٹھن سفر میں شامل کرتا ہوں۔
پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز تقریباً سات سال بعد رواں ہفتے پاکستان واپس پہنچے۔
انہیں مقدمات کا سامنا تھا اور ملک میں نہ ہونے کے سبب احتساب عدالت انہیں اشتہاری قرار دے چکی تھی لہٰذا ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ وطن واپسی پر خود کو عدالت کے سامنے سرینڈر کریں اور انہوں نے جمعرات کو ایسا ہی کیا۔
معمول کی عدالتی کارروائی کے بعد ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے گئے اور اب وہ گرفتاری کے بغیر اپنی قانونی جنگ جاری رکھ سکیں گے۔
کمرہ عدالت میں تو حسین نواز کو کچھ مشکل پیش نہیں آئی لیکن ایک سوال نے انہیں جھنجوڑ دیا، جب صحافی نے پوچھا کہ ماضی میں وہ پانامہ لیکس سے متعلق کیس میں عدالتی و قانونی کارروائیوں سے بچنے کے لیے کہہ چکے ہیں کہ وہ برطانوی شہریت رکھتے ہیں اور پاکستان کے قوانین کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حسین نواز نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ’یہ بات آپ کو کس نے کہی، میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی۔ میں صرف پاکستانی شہری ہوں، میرے پاس کوئی اور پاسپورٹ نہیں، میرے پاس صرف پاکستانی پاسپورٹ ہے۔‘
یہ پاکستانی کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک پر حق کو جتلائے، لیکن ضروری تو نہیں یہ حق صرف ان کو حاصل ہو جو مشکل وقت میں ملک سے باہر رہنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
کیا پاکستان صرف ان کا ہے جنہیں ہر حالت میں یہیں رہنا ہے یا ان کا جو جب چاہیں پاکستان کو اپنا بنا لیں۔
یہ سنتے سنتے عمریں گزر گئیں کہ اس پاکستان نے یہاں بسنے والوں کو کیا دیا اور کیا نہیں۔
حکمران جماعت بھی کہہ رہی ہے کہ اگر سمت درست نہ کی تو ملک نہیں چل سکے گا اس لیے ضروری ہے کہ بات کو آگے بڑھایا جائے اور محض یہ نہ کہا جائے کہ ہم صرف پاکستانی ہیں بلکہ عملی طور پر ثابت کیا جائے کہ پاکستان بھی ہمارا ہے اور ہم بھی اسی کے ہی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔