پنجاب کی جیلوں میں قیدی سب سے زیادہ کس جرم کے؟

پنجاب کی جیلوں میں سب سے زیادہ قیدی قتل کے جُرم میں ہیں اور اس کے علاوہ ایسے مرد قیدی بھی ہیں جو دوسری شادی کی اجازت نہ لینے کے جُرم میں قید ہیں۔

دو دسمبر 2023 کو ایک پولیس اہلکار اڈیالہ جیل کا مین گیٹ بند کر رہا ہے (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی کل 43 جیلوں میں اس وقت ایک ہزار 74 خواتین قید ہیں جن میں سے 342 خواتین منشیات کے مقدمات میں پابند سلاسل ہیں اور سب سے زیادہ خواتین لاہور سینٹرل جیل کوٹ لکھپت میں قید ہیں جہاں خواتین قیدیوں کی تعداد 226 ہے.

صوبہ پنجاب کے جیل خانہ جات کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق صوبے کی جیلوں میں قید خواتین میں سب سے بڑی تعداد منشیات کے کیسز میں سزا یافتہ خواتین کی ہے۔

اس وقت پنجاب کی جیلوں میں 342 خواتین منشیات کے مقدمات میں قید ہیں۔

دوسرے نمبر پر قتل کے مقدمے میں سزایافتہ خواتین کی تعداد 328 ہے۔ ان میں سے 228 پر مقدمات کی سماعت جاری ہے جبکہ 88 سزا یافتہ ہیں۔

پنجاب میں سب زیادہ خواتین قیدی لاہور کی سینٹرل جیل یعنی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں جن کی تعداد 226 ہے اور اس کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سب سے زیادہ خواتین قیدی ہیں جن کی تعداد 181 ہے۔

پنجاب میں قید خواتین میں سب سے بڑی تعداد منشیات کے کیسز کی ہے۔ اس وقت پنجاب کی جیلوں میں 342 خواتین منشیات کے کیسز میں قید ہیں۔

دوسرے نمبر پر قتل کے مقدمے میں گرفتار خواتین کی ہے۔ 328 خواتین پنجاب کی جیلوں میں قتل کے مقدمے میں قید ہیں جن میں سے 228 کا ٹرائل جاری ہے جبکہ 88 سزا یافتہ ہیں۔

مرد قیدیوں کی تعداد اور جرم:

پنجاب پریزن کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق پنجاب کی تمام جیلوں میں کل 62 ہزار سات سو 76 قیدی ہیں جن میں 61 ہزار سات سو دو مرد ہیں۔

مرد قیدیوں میں سب سے بڑی تعداد قتل کے مقدمے میں آنے والوں کی ہے۔ 14 ہزار آٹھ سو 38 قیدی قتل کے مقدمے میں قید ہیں جن میں سے 6 ہزار 292 انڈر ٹرائل ہیں۔

دوسرے نمبر پر بڑی تعداد ڈکیتی کی جُرم کی ہے۔ 6 ہزار 176 مرد ڈکیتی کے الزام میں قید ہیں۔

پنجاب میں سب سے زیادہ ہونے والا جرم:

پنجاب کی جیلوں میں قید مرد اور خواتین کی سب سے بڑی تعداد قتل میں مقدمے میں آںے والوں کی ہے۔

62 ہزار 776 قیدیوں میں سے 15 ہزار 166 مرد اور خواتین قتل کے مقدمے میں قید ہیں۔

بغیر اجازت دوسری شادی کرنے کا جُرم:

پنجاب کی جیلوں میں مسلم لا فیملی ایکٹ-6 میں بھی سات افراد قید ہیں جنہیں بغیر اجازت دوسری شادی کرنے کے جُرم میں سزا ہو چکی ہے۔

مسلم لا فیملی ایکٹ کی دفعہ 6 ایک سے زیادہ شادیوں سے متعلق ہے اور اس کے مطابق پہلی شادی کی موجودگی میں کوئی شخص دوسری شادی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ آربیٹریشن کونسل (مصالحتی کونسل) سے اس ضمن میں تحریری اجازت نامہ نہ حاصل کر لے۔

اسقاط حمل کے قانون کے تحت گرفتار قیدی:

اسقاط حمل قانون کے تحت پنجاب کی جیلوں میں 163 مرد قید ہیں جن میں سے چھ کو سزا ہو چکی ہے۔

پاکستان میں دو دہائیاں قبل تک صرف عورت کی جان بچانے کی خاطر اسقاط حمل کی قانونی اجازت موجود تھی، جبکہ 90 کی دہائی کے آخر میں تعزیرات پاکستان سیکشن 338 میں اضافی شق شامل کر کے بچہ دانی میں بننے والے بچے کے اعضا بننے سے قبل عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دی گئی۔

قانون کے تحت ان شرائط کے پورا نہ ہونے کی صورت میں اسقاط حمل جرم قرار پاتا ہے جس کے لیے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

توہین مذہب:

 توہین مذہب کے کیسز میں اس وقت پنجاب کی جیلوں میں 578 مرد قیدی اور 9 خواتین قیدی موجود ہیں اور ان میں سے 515 انڈر ٹرائل ہیں جبکہ ایک نابالغ بھی موجود ہے۔

یہ قیدی 295 اے، 295 بی اور 295 سی کے تحت گرفتار ہیں۔

295 اے کے تحت پاکستان کے کسی بھی شہری کے مذہبی جذبات اور مذہبی عقائد کی توہین کی سزا دس سال تک قید یا جرمانہ ہے۔ 295 بی کے تحت قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید ہے۔ 295 سی کے تحت توہین رسالت کی سزا موت ہے۔

دیگر مقدمات میں گرفتار قیدی:

پنجاب پریزن کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں دو ہزار 119 مرد اور 16 خواتین ریپ کے کیسز میں قید ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح پاکستان آرمی ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت 644 مرد قیدی  اور 11 خواتین قیدی پنجاب کی جیلوں میں موجود ہیں۔

پنجاب کی جیلوں میں 37 ایسے مرد قیدی بھی ہیں جن کو خودکشی کی کوشش کرنے کی جرم میں قید ہیں اور 15 قیدی جوئے کے جرم میں قید ہیں۔

اغوا کرنے کے جرم میں ایک ہزار 17 مرد اور 35 خواتین بھی قید ہیں۔

پاکستان کی مسلح افواج پر حملہ کرنے کے جُرم میں آٹھ افراد قید ہیں جن میں سے ایک کو سزا ہو چکی ہے۔

اتوار کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور سینٹرل جیل کا دورہ کیا اور خواتین قیدیوں کے ساتھ افطار کیا اور اس موقع پر انہوں نےپورے پنجاب کی جیل میں قیدیوں کو ویڈیو کال کی سہولیات دینے کا اعلان کیا۔

اس کے علاوہ 15 کروڑ سے زائد کی دیت کی رقم ادا نہ کرنے والے 155 قیدیوں کا جرمانہ ادا کر کے انہیں رہا کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی دیگر قیدیوں کی قید میں تین ماہ کی کمی کا اعلان بھی کیا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان