راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی پانچ بچوں کی والدہ دردانہ (فرضی نام) اور ان کے شوہر مزید اولاد کی خواہش نہیں رکھتے لیکن گذشتہ سال 30 سالہ خاتون خانہ حاملہ ہوئیں تو میاں بیوی نے اسقاط حمل کا فیصلہ کیا۔
دردانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مزید بچوں کا مطلب زیادہ خرچہ جو میرے خاوند کی محدود تنخواہ میں پورا ہونا ممکن نہیں تھا اس لیے ہم نے یہ انتہائی مشکل فیصلہ کیا۔‘
دردانہ کے خاوند ایک دوست کی مدد سے انہیں راولپنڈی کے نواح میں واقع ایک نجی زچہ و بچہ مرکز لے گئے جہاں تقریباً 60 ہزار روپے خرچ کرکے غیر تربیت یافتہ دائی (مڈ وائف) کے ہاتھوں تین ماہ کا حمل ضائع کروایا گیا۔
اسقاط حمل کے تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد سے دردانہ کو صحت کے مختلف مسائل درپیش رہنے لگے ہیں جن میں خون کے غیر معمولی بہاؤ کے نتیجے میں جسمانی کمزوری سر فہرست ہے۔
خواتین کی صحت اور تولید سے منسلک مسائل پر کام کرنے والی مختلف مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتی اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے اسقاط حمل کی سب سے زیادہ شرح والے ممالک میں ہوتا ہے۔
سرکار و غیر سرکاری اعداد و شمار کی رو سے پاکستان میں ہر سال تقریبا 90 لاکھ خواتین حاملہ ہوتی ہیں۔ عالمی ادارے فیملی پلاننگ 2020 (FP 2020) کے مطابق 18-2017 میں 47 لاکھ 23 ہزار حمل ان چاہے یا غیر ارادی تصور کیے گئے تھے۔
پاپولیشن کونسل کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے 25 لاکھ سے زیادہ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں 2011 سے 2013 کے درمیان ہونے والے ایک قومی سروے سے لیے گئے اعدادوشمار کا جائزہ لیا گیا اور نتیجہ یہ لیا گیا کہ ملک میں اسقاط حمل کی شرح ہر ایک ہزار میں سے 50 ہے۔
واضح رہے کہ مندرجہ بالا اعداد و شمار ممکنہ طور پر کم ہیں کیونکہ عام طور پر ان سرویز میں صرف ان خواتین کی معلومات شامل کی جاتی ہیں جو اسقاط حمل کے بعد کی پیچیدگیوں کے باعث مراکز صحت سے رجوع کرتی ہیں۔
حیرت انگیز طور پر 2012 کے بعد سے پاکستان میں اسقاط حمل سے متعلق کوئی جامع سروے نہیں ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اہم مسئلے پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
اسقاط حمل کی وجوہات
وفاقی وزارت صحت کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ٹیکنیکل) ڈاکٹر ناصر محی الدین کا کہنا تھا کہ غربت، ناخواندگی اور دیہی پس منظر حمل کو ضائع کرنے کی بڑی وجوہات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت حاملہ خاتون کو بچے کی پیدائش سے پہلے کم از کم چھ مرتبہ ڈاکٹر کے پاس جانے کی ہدایت کرتا ہے جو پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت کم ہے۔
ڈاکٹر ناصر محی الدین کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں زچگی کے دوران بھی حمل بڑی تعداد میں ضائع ہوتے ہیں کیونکہ 28 فیصد خواتین یہ عمل اپنے گھر پر غیر تجربہ کار دائیوں کے ہاتھوں کروانے کو ترجیح دیتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کم عمر میں شادیاں اور بچوں کے درمیان کم وقفہ بھی اسقاط حمل کی اہم وجوہات ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں مانع حمل ادویات کے استعمال کی شرح بہت کم ہونے کی وجہ سے غیر ارادی یا ان چاہے حمل کی تعداد زیادہ ہے۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے مطابق تقریباً 34 فیصد شادی شدہ خواتین ہی خاندانی منصوبہ بندی کی کسی نہ کسی شکل کا استعمال کرتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ان میں سے صرف 25 فیصد جدید مانع حمل کے طریقوں کا استعمال کر پاتی ہیں جبکہ دیگر کو کم موثر روایتی طریقوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ایسی خواتین جو بچوں کے درمیان زیادہ وقفے کی خواہش مند ہیں یا کم بچوں کو ترجیح دیتی ہیں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے استعمال کریں تو اسقاط حمل کی شرح کم ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین کے خیال میں شادی شدہ خواتین کی بہت بڑی تعداد مانع حمل ادویات تک رسائی نہ رکھنے کے باعث اسقاط حمل کا سہارا لیتی ہیں۔
اسقاط حمل کے نقصانات
خیبر پختونخوا کے ایک بڑے شہر سے تعلق رکھنے والی کنیز بی بی (فرضی نام) کو دو سال قبل صحت کی بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے اسقاط حمل کرانا پڑا۔
ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ کنیز بی بی کی تولیدی صحت اسقاط حمل سے متاثر نہیں ہوگی اور چند سال بعد وہ دوبارہ حاملہ ہو سکتی ہیں۔
کنیز بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ڈاکٹروں کا خیال ٹھیک ثابت ہوتا اگر ابارشن ٹھیک ہوتا، لیکن ایسا ہوا نہیں، کوئی مسئلہ ہوا اور اب میرے لیے حاملہ ہونا ممکن نہیں ہے۔‘
ماہرین صحت کے مطابق اسقاط حمل سے گزرنے والی خواتین میں سے تقریباً ایک تہائی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں جن میں بہت زیادہ خون بہنا، بچے دانی (یوٹریس) میں سوراخ اور مہلک انفیکشنز ہو جانا شامل ہیں۔
تولیدی صحت پر کام کرنے والے معتبر ادارے گٹ ماکر انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2012 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چھ لاکھ خواتین اسقاط حمل کے بعد صحت کے مسائل سے دوچار ہوئیں۔
اسقاط حمل ماں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہونے کے علاوہ خاتون کی زندگی کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ناصر محی الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 500 خواتین اسقاط حمل کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعدادوشمار بہت پرانے ہیں اور اب اسقاط حمل کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
خواتین کی صحت کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی غیر حکومتی ادارے آئی پاس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چھ سے 13 فیصد خواتین غیر محفوظ اسقاط حمل کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔
غیر محفوظ اسقاط حمل کی بہتات کے باعث پاکستان میں ماؤں کی اموات کی شرح بھی دنیا کے دوسرے کئی ممالک کے مقابلے میں زیادہ بتائی جاتی ہے۔ 2020 میں سامنے آنے والے تازہ ترین میٹرنل مورٹیلیٹی سروے کے مطابق ملک میں ہر ایک لاکھ پیدائشوں میں سے 186 ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک ماہ کے اندر ہلاکت ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر ناصر محی الدین کے خیال میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اپنا کر اسقاط حمل کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ایف پی 2020 سروے کے مطابق 2019 میں پاکستان میں تقریباً 95 لاکھ 96 ہزار خواتین نے مانع حمل کے جدید طریقے استعمال کیے، جس کے نتیجے میں تقریباً 35 لاکھ انچاہے حمل روکے گئے اور 14 لاکھ سے زائد غیر محفوظ اسقاط حمل نہیں ہونے دیے گئے اور 3400 خواتین کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا گیا۔
ڈاکٹر ناصر محی الدین کا کہنا تھا کہ بچوں کے درمیان وقفے کے علاوہ چھوٹی عمر کی شادیوں کی صورت میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے انچاہے حمل کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں، جس سے اسقاط حمل کے واقعات میں بھی کمی واقع ہو گی۔
آئی پاس کے مطابق اسقاط حمل کی حوصلہ شکنی کے لیے مرد ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں شوہر، والد اور بھائی خواتین کی زندگیوں کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں اسقاط حمل سے متعلق قانون
پاکستان میں دو دہائیاں قبل تک صرف عورت کی جان بچانے کی خاطر اسقاط حمل کی قانونی اجازت موجود تھی، جبکہ 90 کی دہائی کے اواخر میں تعزیرات پاکستان کے سیکشن 338 میں اضافی شق شامل کر کے بچہ دانی میں بننے والے بچے کے اعضا بننے سے قبل عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دی گئی۔
قانون کے تحت ان شرائط کے پورا نہ ہونے کی صورت میں اسقاط حمل جرم قرار پاتا ہے جس کے لیے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔