عورت اہم یا حمل؟ امریکہ میں اسقاط حمل سے جڑے قوانین اور تنازعات

امریکی سپریم کورٹ 1973 میں خواتین کو اپنی مرضی سے حمل رکھنے یا ضائع کرنے کا اختیار دے چکی ہے۔ اب عدالت دوبارہ یہ معاملہ سننے جا رہی ہے۔

چار اکتوبر 2021، کو اسقاط حمل کے مخالف افراد واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سپریم کورٹ کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں(فوٹو اے ایف پی)

 1973 میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے یہ کسی بھی خاتون کا بنیادی حق قرار دیا کہ وہ اپنی مرضی سے حمل ضائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔ تقریباً 48 برس بعد ٹیکسس کے نئے قوانین اس فیصلے سے واضح انحراف نظر آتے ہیں، جن کا نفاذ سپریم کورٹ نے  ہنگامی بنیادوں پر روکنے سے انکار کر دیا۔ کیا سپریم کورٹ اپنے تاریخ ساز فیصلے کو برقرار رکھ پائے گی؟

اس وقت خفیہ جنسی تعلق کے نتیجے میں حمل ٹھہرے 28 ہفتے گزر چکے تھے جب شوہر کی اچانک آمد کی خبر نے جیری سینٹورو کو ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا، جس کا ذکر کرتے ہوئے دل کانپنے لگتا ہے۔

دس برس تک ان کے خاوند سیم سینٹورو ان کے ساتھ رہے۔ جب جذبات کا طوفان تھمنے لگا تو اپنی انا کی تسکین کے لیے وہ گاہے بگاہے ہاتھ اٹھانے لگے۔ 1963 کی ایک شام سیم نے حسب معمول جیری پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی۔ جیری نے اپنی دونوں بیٹیوں کو ساتھ لیا اور اپنے آبائی گھر کونٹری، کنیٹی کٹ لوٹ آئیں۔

پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے جیری نے مینز فیلڈ سٹیٹ ٹریننگ سکول میں معمولی سی ملازمت کرلی اور وہیں ان کی ملاقات کلائیڈ ڈکسن سے ہوئی۔ قربتیں بڑھیں اور 28 سالہ جیری حاملہ ہو گئیں۔

ایک دن جیری کے خاوند نے اطلاع دی کہ وہ کیلیفورنیا سے اپنی بیٹیوں کو ملنے آ رہے ہیں۔ سات ماہ کا حمل اور شوہر کی اچانک آمد، جیری کو موت نظر آنے لگی۔ انہوں نے ڈکسن سے ذکر کیا اور باہمی مشاورت سے ایک انتہائی خطرناک قدم اٹھانے کی ٹھان لی۔

شام ہوتے ہی دونوں ایک ہوٹل میں گئے۔ ڈکسن ایک طبی کتاب اور چند آلات جراحی اپنے ساتھ لائے تھے۔ کتاب کے صفحات سے معلوم کیا کہ بچہ کیسے باہر نکالنا ہے اور شروع ہو گئے۔ اتنا پیچیدہ کام اس اناڑی پن سے بھلا ہو پاتا ہے؟ خون کا فوارہ دیکھ کر ڈکسن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ جیری کو اسی حالت میں چھوڑ کر وہ بھاگ گئے اور جیری کی مصیبت موت نے آسان کی۔

صبح پولیس نے پہنچتے ہی وہ منظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔ نو برس بعد 1974 میں وہ تصویر مسز میگزین میں شائع ہو گئی۔ جیری اوندھے منہ گھٹنوں کے بل فرش پر پڑی ہیں۔ ٹانگوں میں خون سے لت پت تولیہ ہے۔

یہ تصویر امریکہ میں بسنے والی  بے شمار خواتین کی مشکلات کی عکاسی کرتی ہے۔ جب تک امریکہ میں اسقاط حمل پر پابندی رہی تب تک ہزاروں عورتیں اسی طرح تڑپ تڑپ کر مرتی رہیں۔ پابندی کے نتیجے میں اسقاط حمل کی شرح پر بہت معمولی فرق پڑتا ہے لیکن موت کے اعداد و شمار میں اضافہ تیزی سے ہوتا ہے۔

 

آخر اسقاط حمل پر یہ پابندیاں آئیں کہاں سے اور کیسے ختم ہوئیں؟ کیا یہ عورت کا بنیادی حق ہے کہ وہ جب چاہے اپنا حمل ضائع کروا دے؟ امریکہ میں اسقاط حمل پر لگنے والی حالیہ پابندیاں کیا ہیں اور اس سے خواتین کی زندگیاں کس حد تک متاثر ہو سکتی ہیں؟ آئیے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

 جب امریکہ میں اسقاط حمل پر مواد شائع کرنا اور مانع حمل ادویات تک غیر قانونی تھیں

آزادی کے بعد امریکہ نے بیشتر دیگر قوانین کی طرح اسقاط حمل کے معاملے میں بھی انگلینڈ کے عدالتی فیصلوں کی پیروی کی۔ انگلش کامن لا کے مطابق جب ماں پیٹ میں بچے کی حرکت محسوس کرنے لگے تو اس کے بعد حمل ساقط کروانا جرم تھا۔ جنین کی حرکت بالعموم حمل ٹھہرنے کے 15 سے 20 ہفتوں کے درمیان محسوس ہوتی ہے۔

چونکہ بچے کی حرکت کا مطلب اس میں زندگی کے آثار نمودار ہونا سمجھا جاتا تھا، اس لیے اس کے بعد حمل گرانے کا مطلب ایک انسان کو جینے کے بنیادی ترین حق سے محروم کرنا تھا۔ یہ بحث آج بھی امریکہ میں بہت زور شور سے جاری ہے۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں کچھ ایسے قوانین متعارف کروائے گئے کہ اسقاط حمل تو درکنار اس کے بارے میں بات کرنا بھی جرم ٹھہرا۔ 1873 میں سماجی مصلح انتھونی کامسٹاک نے عوام الناس کے بگڑتے اخلاق پر بند باندھنے کے لیےنیویارک سوسائٹی فار دا سپریشن آف وائس (New York Society for the Suppression of Vice) قائم کی۔ بعد میں کامسٹاک نے امریکی پارلیمنٹ کو قائل کرتے ہوئے چند قوانین پاس کروا لیے جو کامسٹاک قوانین کے نام سے مشہور ہوئے۔

ان قوانین کے مطابق سرکاری ڈاک کے ذریعے ’فحش، شہوت پرستانہ یا جنسی طور پر اشتعال انگیز‘ مواد کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی گئی۔ فوری طور پر امریکہ کی 37 میں سے 24 ریاستوں میں ایسے قوانین پاس کیے گئے جن کے مطابق نہ صرف مانع حمل ادویات غیر قانونی قرار دی گئیں بلکہ اسقاط حمل کے مراحل اور طریقہ کار پر بات بھی جرم ٹھہری۔ یہاں تک کہ میڈیکل کے طلبہ بھی ان سے متعلق جانکاری حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

بیسویں صدی کے آغاز تک کم و بیش صورت حال ایسی ہی رہی۔ البتہ بعض ریاستوں میں ریپ یا عورت کی زندگی کو خطرے کی صورت میں اسقاط حمل کی مشروط اجازت تھی۔

 حقوق انسانی کے کارکنان اور تحریک نسواں کے علمبردار مختلف انداز میں ان قوانین کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔ دوسری طرف عدالتی فیصلے اور امریکہ کی مختلف ریاستیں مشروط انداز میں اسقاط حمل پر لگی پابندیاں نرم کرتی جا رہی تھیں۔

60 اور 70 کی دہائی میں کولوریڈو، کیلیفورنیا، اوریگون اور نارتھ کیرولائنا وہ ابتدائی امریکی ریاستیں تھیں جنہوں نے مشروط طور پر تین صورتوں میں اسقاط حمل کی اجازت دی۔ کسی عورت کا ریپ ہو جائے، محرم انسانوں کے جنسی تعلق سے اکوا پھوٹ پڑے یا عورت کی مستقل معذوری کا خدشہ ہو۔

واشنگٹن پوسٹ کے 2013 میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق رو بنام ویڈ (Roe v. Wade) کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے امریکہ کی محض 14 ریاستوں نے مشروط طور پر اسقاط حمل کی اجازت دے رکھی تھی۔ باقی سب ریاستوں میں اس پر پابندی تھی۔ یہ صورت حال رو بنام ویڈ کیس سے پورے امریکہ میں تبدیل ہو کر رہ گئی لیکن یہ کیس تھا کیا؟

جب سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے پورے امریکہ میں اسقاط حمل قانونی ٹھہرا

امریکی ریاست ٹیکسس کی 21 سالہ شہری نورما میک کوروی تیسری بار حمل سے دوچار ہو چکی تھیں۔ ان کا پہلا بچہ ماں نے زبردستی چھین لیا تھا، دوسرا پیدا ہوتا ہی انہوں نے گود لینے والے افراد کے حوالے کر دیا اور تیسرا وہ پیدا کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔

یہ بات ہے جون 1969 کی اور تب ٹیکسس کے قوانین کے تحت اسقاط حمل صرف ایک صورت میں ممکن تھا جب ڈاکٹروں کے مطابق ماں کی جان کو خطرہ درپیش ہو۔ نورما نے غیر قانونی طریقے سے بچہ ضائع کروانے کے لیے خفیہ ٹھکانوں کی ٹوہ لگائی تو پتہ چلا کہ پولیس انہیں زبردستی بند کروا چکی ہے۔

 مجبوراً دو خواتین وکلا سارہ ویڈنگٹن اور لنڈا کوفی کے ذریعے انہوں نے ٹیکسس کے شمالی اضلاع کے لیے مخصوص مقامی عدالت میں کیس دائر کر دیا۔ نورما کیس میں ان کی شناخت مخفی رکھنے کے لیے جین رو (Jane Roe) کا نام استعمال کیا گیا تھا۔

ان کے وکلا نے موقف اپنایا کہ عورت کو اسقاط حمل سے زبردستی روکنا ’نجی معاملات میں ریاست کی بے جا مداخلت‘ ہے۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ ٹیکسس حکومت یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئی۔

اس کیس میں سرکاری وکیل کے طور پر ہینری ویڈ پیش ہوئے اور اسی وجہ سے یہ کیس رو بنام ویڈ کے نام سے مشہور ہوا۔

22 جنوری 1973 کو امریکی سپریم کورٹ نے 7/2 کی اکثریت سے فیصلہ نورما میک کوروی کے حق میں دیتے ہوئے ٹیکسس کے قوانین کو تبدیل کردیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق امریکہ میں یہ کسی بھی خاتون کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے حمل ضائع کرے یا نہ کرے۔

 

تاہم سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ عورت کے پاس یہ حق ’مطلق‘ نہیں۔ اسقاط حمل کے معاملے میں ریاست کس حد تک مداخلت کر سکتی ہے؟ اس بارے میں واضح الفاظ میں لکھا کہ حمل کی پہلی سہ ماہی میں ریاستوں کو مداخلت کا قطعاً کوئی اختیار نہیں، دوسری سہ ماہی میں ریاستیں عورت سے معقول وجہ پوچھ سکتی ہیں، تیسری سہ ماہی کے دوران ریاستیں اسقاط حمل کے خلاف اس صورت میں مکمل پابندی عائد کر سکتی ہیں جب قوانین ماں کی زندگی بچانے کے لیے اس عمل کی گنجائش رکھتے ہوں۔

اس فیصلے کے نتیجے میں پہلی بار پورے امریکہ میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت ملی اور اس کے نتیجے میں خواتین کو محفوظ راستے میسر آئے۔ البتہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکاری نظر آئی۔

اگرچہ اس فیصلے کے دوران سپریم کورٹ نے پیدا ہونے سے پہلے عورت کے پیٹ میں موجود بچے کو ’انسان‘ قرار دے کر اس کی زندگی اور شناخت کا تحفظ اپنے دائرہ کار سے ماورا قرار دیا لیکن پارلیمنٹ، علمیات اور عوامی سطح پر یہ بحث زور و شور سے جاری رہی۔

Partial-Birth Abortion Ban Act of 2003  میں پہلی بار اس فیصلے سے معمولی انحراف کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف انداز میں یہ سلسلہ جاری رہا البتہ ٹیکسس کے نئے قوانین کو اسقاط حمل کی راہ میں نئی پابندیوں کا پیش خیمہ سمجھا جا رہا ہے۔

ٹیکسس کے نئے قوانین اور موجودہ منظر نامہ

11  مارچ 2021 کو امریکہ کی دوسری بڑی ریاست میں ٹیکسس ہارٹ بیٹ ایکٹ (Texas Heartbeat Act) متعارف کروایا گیا جس پر 19 مئی کو گورنر گریگ ایبٹ نے دستخط کر دیے۔ اس نئے قانون کے تحت جنین کے دل کی دھڑکن شروع ہونے کے بعد عورت اسقاط حمل نہیں کروا سکتی۔ عام طور پر حمل ٹھہرنے کے پانچویں، چھٹے ہفتے جنین کا دل دھڑکنے لگتا ہے۔

دوسری طرف کسی عورت کے لیے چھ ہفتوں کے اندر اندر اس بات کا ادراک کرنا کہ وہ حاملہ ہے بہت ہی مشکل ہے۔ یکم ستمبر سے نافذ ہونے والے اس قانون نے گویا عملی طور پر ٹیکسس میں اسقاط حمل کو ناممکن بنا دیا۔

اس بل کی ایک انوکھی بات یہ ہے کہ چھ ہفتوں کے بعد اسقاط حمل کرنے والی عورت یا اس کے سہولت کار کے خلاف حکومت کارروائی نہیں کرے گی بلکہ عام شہریوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سول لا کے تحت اس غیر قانونی عمل کے خلاف کیس دائر کریں۔ اس عمل کی کم سے کم سزا دس ہزار ڈالر جرمانہ ہے۔

اس قانون کے خلاف مختلف مقامی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے۔ 30 اگست 2021 کو سینٹر فار ری پروڈکٹیو رائٹس نے ہنگامی بنیادوں پر سپریم کورٹ میں اس کے خلاف درخواست جمع کروائی۔ درخواست میں اس قانون کے نفاذ پر ہنگامی بنیادوں پر پابندی کی استدعا کی گئی تھی۔ چار کے مقابلے میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے  یہ استدعا رد کر دی۔

البتہ فوری ریلیف فراہم کرنے کی یہ درخواست منظور نہ کرنے کے باوجود سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ یہ بل ماتحت مقامی یا وفاقی عدالتوں پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے چار ججوں میں سے ایک جسٹس سوتو میئر نے اس بل کو ’خواتین کو فراہم کردہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی‘ قرار دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھی ججوں کے متعلق لکھا کہ ان کی ’اکثریت نے شتر گربی سے کام لینے کو ترجیح دی۔‘

اس بل کی ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس میں ریپ کی صورت میں ٹھہرنے والے حمل کو بھی استثنیٰ نہیں دیا گیا۔

دوسری طرف سپریم کورٹ متوقع طور پر یکم دسمبر 2021 سے اسقاط حمل سے متعلق ایک نہایت اہم کیس سننے جا رہی ہے۔ دراصل 2018 میں ریاست مسی سپی نے حمل ٹھہرنے کے 15 ہفتوں بعد اسے ضائع کرنا جرم قرار دیا تھا۔ ماتحت عدالتوں نے اس قانون کو رو بنام ویڈ کیس کی روشنی میں منسوخ کر دیا۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔

2019 میں ایسا ہی ایک بل جارجیا میں پاس کیا گیا تھا، جس کے تحت چھ ہفتوں بعد حمل ضائع کرنا جرم بن گیا۔ جارجیا کی شمالی علاقہ جات کے لیے مخصوص ضلعی عدالت نے رو بمقابلہ ویڈ کی وجہ سے اسے غیر آئینی قرار دیا۔

ریاست اس فیصلے کے خلاف الیونتھ سرکٹ میں چلی گئی جہاں عدالت نے مسیسپی ریاست کے معاملے پر سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے کی آمد تک اسے التوا میں ڈال دیا۔

ٹیکسس کے ایسے قوانین کالعدم قرار نہ دئیے گئے تو خدشہ ہے کہ دیگر ریاستیں بھی اس راستے پر چل نکلیں گی اور اس کا سب سے زیادہ بھیانک پہلو خواتین کی زندگیوں کو لاحق خطرات ہوں گے۔

اسقاط حمل پر پابندیاں اور خواتین کی شرح اموات میں اضافہ؟

سائنس، میڈیکل اور روشن خیالی کے اس دور میں حمل ویسے بھی کوئی خوشگوار چیز نہیں، لیکن حمل ضائع کرنے کے راستے بند کرنے سے اس کے مہلک اثرات شدید تر ہو جائیں گے۔

دوسری طرف وہ خواتین جو بچوں کی بلائے ناگہانی سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتی ہیں، انہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے راستے میں یہ پابندی رکاوٹ ثابت ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ایسا تو ممکن نہیں کہ ریاست پابندیاں لگائے اور خواتین حمل ضائع کرنے سے تائب ہو جائیں۔ نتیجتاً وہ تجربہ کار اور سلیقہ مند ڈاکٹروں کے بجائے خفیہ طور پر خطرناک راستہ اختیار کریں گی اور اس سے ہلاکتوں کا تناسب بڑھ ہو گا۔

گٹماچر انسٹی ٹیوٹ  (Guttmacher institute)کے مطابق جن ممالک میں اسقاط حمل پر پابندی ہے، وہاں اور جہاں یہ پابندی نہیں وہاں ہر سال اوسطاً ایک جتنے حمل گرائے جاتے ہیں، لیکن جہاں یہ غیرقانونی ہے وہاں خواتین کی موت کا تناسب آٹھ سے دس فیصد زیادہ ہے۔

دی کنورسیشن کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق امریکہ میں اگر اسقاط حمل غیر قانونی ٹھہرا دیا گیا تو خواتین کے مرنے کا تناسب 21 فیصد تک بڑھ جائے گا۔

عورتوں میں سب سے زیادہ سیاہ فام خواتین متاثر ہوں گی۔ ٹائم اخبار نے میسی سی اور الینوائے میں اسقاط حمل پر پابندی کے بعد کی ممکنہ صورت حال کا جائزہ پیش کیا ہے، جس کے مطابق اس سے مجموعی طور پر 15 فیصد جبکہ سیاہ فام خواتین کی شرح اموات میں 33 فیصد تک اضافے کا خدشہ ہے۔

عورت اہم یا جنین؟

انیسویں صدی میں اکثر و بیشتر کیتھولک چرچ اپنی تعلیمات میں ایک جملہ ضرور دہراتا تھا کہ ’حمل ٹھہرنے کے بعد کسی بھی مرحلے پر جنین کا خاتمہ اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا بڑا جرم کسی انسان کو قتل کرنا۔‘ ایک طرف مذہب اس نقطہ نظر کی ترویج کر رہا تھا دوسری طرف میڈیکل کی ترقی یہی سوال سائنسی انداز میں پوچھ رہی تھی۔

اوپر ہم نے جب انگلش کامن لا کے مطابق اسقاط حمل کی اجازت کا ذکر کیا تو وہاں بنیادی شرط ’ماں کو اپنے پیٹ میں بچے کی حرکت محسوس ہونا‘ تھا، جس کے بعد وہ حمل ساقط نہیں کر سکتی۔ اس شرط کی بنیاد اس بات پر تھی کہ حرکت کرنے کا مطلب ہوا بچے میں زندگی انگڑائی لے چکی ہو۔

سائنس کی ترقی نے انسان پر منکشف کیا کہ جنین کی حرکت محض ایک معمولی سا مرحلہ ہے۔ زندگی اس سے پہلے بھی زندگی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے جنین کی حرکت کو اسقاط حمل پر پابندی کی بنیاد بنانا بالکل واہیات ہے۔

اب سوال فقط مذہبی نوعیت کا نہیں رہا بلکہ فلسفیانہ اور سائنسی پہلو بھی رکھتا ہے۔ اگر یہ معاملہ صرف مذہبی ہوتا تو اکثر و بیشتر  اپنے دیگر  لایعنی خیالات کی طرح دفن ہو چکا ہوتا لیکن یہاں سین اور ہے۔

 

1973 میں رو بنام ویڈ کیس میں جب سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کی اجازت دی تو اس وقت اجازت کے خلاف زور و شور سے تحریک چلنے لگی، جس کے بیشتر سرکردہ رہنما کیتھولک تھے۔

دوسری طرف امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے پر تفریق کا شکار ہیں۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے سے پہلے یہ تقسیم شدید تھی نہ واضح، لیکن قدامت پسند ری پبلکنز نے مذہبی گروہوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے اسقاط حمل کی مخالفت شروع کر دی۔

مذہبی اور اخلاقی بنیادوں پر اسقاط حمل کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی اس کی وکالت کرنے والوں سے کم نہیں۔ گیلپ کے مئی 2018 میں منعقدہ ایک سروے میں یہ تعداد 48 فیصد کے تناسب سے برابر تھی۔ گیلپ کے ہی مختلف جائزوں میں جب امریکی شہریوں سے پوچھا گیا کیا وہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کو تبدیل کر دے؟

اس کے جواب میں گذشتہ تقریباً 30 برس سے اوسطاً 55 فیصد افراد کی رائے یہی ہے کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ برقرار رکھے۔

1973 میں سپریم کورٹ کے سامنے ٹیکسس کے وکیل نے اسقاط حمل پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’زندگی‘ اسی لمحے شروع ہو جاتی ہے جب حمل ٹھہر جائے، اس لیے اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے یہ دیکھے بغیر کہ بچہ کس مرحلے میں ہے اس کی حفاظت یقینی بنائے۔

اس کے جواب میں عدالت نے موقف اپنایا کیوں کہ آئین میں پیدا ہونے سے پہلے کسی کو ’شخص‘ نہیں کہا گیا اس لیے آئین کی رو سے ٹیکسس کا یہ کہنا بے بنیاد ہے۔

جب عدالت سے یہ معاملہ حل کرنے کی استدعا کی گئی تو عدالت نے کہا ’یہ مشکل سوال کہ زندگی کب شروع ہوتی ہے ہمیں اسے حل کرنے کی کیا پڑی ہے۔

جب طب، فلسفہ اور دینیات کے شعبوں کے ماہرین کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہیں تو موجودہ انسانی علوم کے ساتھ سپریم کورٹ اس قابل نہیں کہ کسی نتیجے پر پہنچے۔‘

کیا اس بار دوبارہ سپریم کورٹ کے سامنے یہی سوالات رکھے جائیں گے؟ کیا اب سپریم کورٹ کسی واضح جواب تک پہنچ پائے گی؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین