فیصل آباد کی مشینی جلیبیاں جو چار ماہ تک ’تازہ‘ رہتی ہیں

محمد اشرف نے بتایا کہ ان کے والد ، بڑے بھائی اور وہ خود اکٹھے جلیبیاں نکالا کرتے تھے لیکن والد کی وفات اور بڑے بھائی کے بہت زیادہ بیمار ہونے کے بعد انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ جلیبیوں والی مشین بنائی جائے۔

پنجاب میں جلیبیاں سب سے زیادہ پسند کی جانے والی مٹھائیوں میں شامل ہے لیکن فیصل آباد کی مشینی اپنے بناوٹ کے طریقے کی وجہ سے اپنا الگ مقام رکھی ہیں۔

فیصل آباد کے محمد اشرف اس روایتی مٹھائی کو مشین سے تیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مشینی جلیبیوں کے نام سے مشہور ہیں اور اس جدت نے انہیں ہر خاص وعام میں مقبول بنا رکھا ہے۔

انہوں نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی دکان کا نام پیپل باٹا جلیبی شاپ ہے اور یہ کام ان کے والد نے 1960 میں ستیانہ روڈ جھال سے  شروع کیا تھا۔

’میرے والد کی دکان پیپل کے درخت کے نیچے تھی اس لیے  لوگ کہتے تھےکہ پیپل والوں سے جلیبیاں لے کر آو۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ 15 سال بعد وہاں پیچھے باٹا کی جوتوں والی دکان بن گئی۔ اس طرح نام مکس ہو گیا، کوئی کہتا تھا کہ پیپل والوں سے جلیبیاں لاؤ، کوئی کہتا تھا کہ باٹا والوں سے جلیبیاں لاؤ۔ اس طرح قدرتی طور پر ہمارا نام بن گیا پیپل باٹا۔‘

انہوں نے بتایا کہ 1960 میں جب ان کے والد صاحب نے کام شروع کیا تھا تو دیسی گھی کی جلیبیاں ڈھائی روپے کلو کے حساب سے فروخت ہوتی تھیں اور اب ان کی قیمت بڑھتے بڑھتے 1800 روپے تک پہنچ چکی ہے۔

’لوگ ہماری جلیبی بہت پسند کرتے ہیں کیوں کہ اس میں چینی ہلکی ہوتی ہے، یہ خستہ ہوتی ہے اوریہ  تین سے چار ماہ فریج کے بغیر پڑی رہیں تو بھی خراب نہیں ہوتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ سردیوں کے چھ ماہ جس طرح مچھلی کا سیزن ہوتا ہے اور لوگ مچھلی پسند کرتے ہیں اسی طرح  سردیوں میں ان کی جلیبیاں فروخت ہوتی ہیں۔

جلیبیاں بنانے کے لیے مشین تیار کرنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پہلے ان کے والد، بڑے بھائی اور وہ خود اکٹھے جلیبیاں نکالا کرتے تھے لیکن والد کی وفات اور بڑے بھائی کے بہت زیادہ بیمار ہونے کے بعد ان کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ جلیبیوں والی مشین بنائی جائے۔

’لوگ مجھ سے مذاق کرتے تھے کہ جلیبیوں والی مشین نہیں ہوتی، میں کہتا تھا کہ ہو تی ہے۔ خیر اللہ کو یاد کر کے میں نے کوشش شروع کر دی اور تقریباً ڈیڑھ سال میں یہ مشین بنا لی۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ 2014 سے مشین کے ذریعے  جلیبیاں بنا رہے ہیں اور اس انفرادیت و جدت کی وجہ سے لوگ انہیں اور بھی زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشین صرف جلیبیاں نکالتی ہے لیکن معیار میٹریل سے آتا ہے اور وہ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔

اشرف کے مطابق انہوں نے بہت سے دیگر لوگوں کو بھی جلیبیاں بنانے والی مشینیں بنا کر دی ہیں جو بیرون ملک اور دیگر شہروں میں استعمال ہو رہی ہیں۔

’اس ٹھنڈی جلیبی کو آپ مائیکرویوو اوون میں 15 سے 30 سکینڈ گرم کریں یہ ایسے ہو جائے گی جیسے ابھی تازہ بنی ہے۔ اس وجہ سے ہماری جلیبیاں بیرون ملک بھی جاتی ہیں، دوسرے شہروں میں بھی جاتی ہیں کیوں کہ عام جلیبی دو سے تین دن میں خراب ہو جاتی ہے۔ اس نے جب ٹھنڈی ہو جانا ہے تو ٹھنڈی بھی کھائی جاتی ہے۔‘

جلیبیوں کی فروخت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ یومیہ تقریباً ایک سے دو من جلیبیاں فروخت کرتے ہیں۔

’یہ ہوائی روزی ہے کسی وقت دو من بھی فروخت ہو جاتی ہے، کسی وقت تین من اور اگر شہر سے باہر کے گاہک آ جائیں تو چار من بھی فروخت ہو جاتی ہے اور کسی وقت ایک من ہی فروخت ہوتی ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان