عالمی برادری غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد پر عمل درآمد یقینی بنائے: پاکستان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کی لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اقوام متحدہ کی گاڑیاں 25 مارچ 2024 کو غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے درمیان سے گزر رہی ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی برداری غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

دوسری جانب اے ایف پی کے مطابق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ جنگ کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اے ایف پی نے غزہ کی پٹی کے محکمۂ صحت کے حوالے سے خبر دی ہے کہ منگل کی صبح بھی اسرائیل نے حملے جاری رکھے جن میں 70 افراد جان سے گئے۔ اس میں سے 13 افراد کو رفح شہر میں نشانہ بنایا گیا۔

عینی شاہدوں نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں نے منگل کی صبح رفح پر شدید بمباری کی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کی تھی، سلامتی کونسل میں ہونے والی ووٹنگ میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا جبکہ دیگر 14 کونسل ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے اپنے بیان میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی  کے لیے سکیورٹی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد یقینی بنائے۔‘

انہوں نے کہا کہ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر جاری ’صہیونی ظلم و جبر کو مستقل طور پر بند ہونا چاہیے۔ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچے شہید ہوئے۔‘

پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ ’غزہ میں اسرائیل کی جانب سے دانستہ طور پر ہسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا جو انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

’پاکستان اپنے نہتے فلسطینی بہن بھائیوں کی جون 1967 سے قبل سرحدوں کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کے حصول کے لیے حمایت جاری رکھے گا۔‘

اس سے قبل پیر کی شب پاکستان کے دفتر خارجہ نے سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو منظور کیے جانے کا خیرمقدم کیا تھا۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں رمضان کے دوران غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کرتا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم سکیورٹی کونسل کی جانب سے غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی آزادانہ رسائی، امداد کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کے تحفظ کے مطالبے کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔‘

حماس کا خیرمقدم

حماس نے سلامتی کونسل کی قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کے لیے اپنی آمادگی ظاہر کی ہے۔

حماس نے ایک بیان میں اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ قطر کی میزبانی میں مذاکرات کے تازہ ترین دور کو ناکام بنا رہا ہے۔

حماس نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو اور ان کی کابینہ مذاکرات کی کوششوں کی ناکامی اور اب تک کسی معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔

اسرائیلی وفد کا دورۂ امریکہ منسوخ

دوسری جانب امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے ردِ عمل کے طور اسرائیل نے اپنے ایک وفد کا دورہ واشنگٹن منسوخ کر دیا ہے۔

اسرائیل نے بیان میں کہا ہے کہ اس قرارداد سے اس کی جنگی کوششوں اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں دونوں کو نقصان پہنچا ہے، جبکہ وزیرِ اعظم نتن یاہو کے دفتر نے اسے ’امریکہ کے مستقل موقف سے واضح پسپائی‘ قرار دیا ہے۔

عمل درآمد میں ناکامی ’ناقابلِ معافی‘

سلامتی کونسل کی قرارداد میں ’پورے غزہ کی پٹی میں شہریوں کے تحفظ کے لیے انسانی امداد کی رسائی کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا گیا ہے۔‘

ووٹنگ کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے قرارداد پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ناکامی ’ناقابل معافی‘ ہو گی۔

سات اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد سے اس معاملے پر سلامتی کونسل منقسم ہے اور اس نے آٹھ میں سے صرف دو قراردادوں کی منظوری دی ہے اور وہ دونوں بنیادی طور پر تباہ شدہ غزہ کی پٹی کو انسانی امداد کی فراہمی سے متعلق تھیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور اسرائیل کے اہم حامی امریکہ نے حماس کے حملوں کے بعد اس موقف کی واضح حمایت کی تھی کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

لیکن غزہ میں انسانی بحران کے شدت اختیار کرنے کے ساتھ ہی امریکہ نے فلسطینی تنظیم حماس کے خلاف جارحیت کی وجہ سے اسرائیل کی حمایت میں کمی کی ہے۔

غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت کا آغاز سات اکتوبر 2023 سے ہوا تھا جب حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 1160 لوگ مارے گئے تھے۔

غزہ میں وزارت صحت نے اتوار کو اموات کی مجموعی تعداد 32،226 بتائی ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

وزارت نے کہا کہ اتوار کی علی الصبح 72 افراد جان سے گئے جن میں کم از کم 26 افراد جنوبی شہر رفح میں پانچ گھروں پر فضائی حملوں کے نتیجے میں جان سے گئے۔

گذشتہ جمعے کو سلامتی کونسل نے امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے ایک مسودے پر ووٹ دیا تھا جس میں قیدیوں کی رہائی سے مشروط ’فوری‘ فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

چین اور روس نے قرارداد کو ویٹو کر دیا اور اس پر اس لیے تنقید کی تھی کہ اس میں واضح طور پر اسرائیل سے اپنی جارحیت بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اتوار کو جو نیا متن دیکھا اس میں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے لیے ’فوری فائر بندی کا مطالبہ‘ کیا گیا ہے جس سے ’مستقل اور پائیدار فائر بندی‘ کی راہ ہموار ہو گی۔

اس میں ’تمام قیدیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔‘

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رفح میں ایک بےگھر 10 سالہ بچی نے اپنا گھر تباہ ہو جانے کے درد اور غیر یقینی صورت حال پر افسوس کا اظہار کیا۔

راما نے عارضی کیمپ، جو اب اس کا گھر ہے، میں اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے بھی ایک چھوٹی بچی کی حیثیت سے دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے کی طرح ایک محفوظ جگہ پر رہنے کا حق حاصل ہے۔

’میں بحفاظت سکول جاتی تھی، لیکن اب بم دھماکوں کی وجہ سے ہم سکول نہیں جاتے، اور جب میں اپنے گھر سے باہر جاتی ہوں تو مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘

باخبر ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ قیدیوں کی رہائی کے بدلے فائر بندی کے حصول کے لیے قطر میں مذاکرات جاری ہیں تاہم مذاکرات میں شامل اسرائیلی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان اب مشاورت کے لیے خلیجی امارات سے روانہ ہوگئے ہیں۔

حماس کا یہ موقف ایک اہم نکتہ رہا ہے کہ عارضی فائر بندی کے نتیجے میں غزہ سے اسرائیل کا مستقل انخلا ہونا چاہیے، جسے اسرائیل نے مسترد کر دیا ہے۔

فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے نے اتوار کو کہا ہے کہ اسرائیل نے اسے شمالی غزہ میں امداد کی فراہمی سے یقینی طور پر روک دیا ہے، جہاں قحط کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔

اس ایجنسی کے سربراہ فلپ لازارینی نے ایکس پر بتایا کہ ’ہمارے سامنے پیش آنے والے سانحے کے باوجود، اسرائیلی حکام نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا ہے کہ وہ اب شمال میں کھانے پینے کے سامان کے قافلوں کی منظوری نہیں دیں گے۔

’یہ ناقابل قبول اور انسان کے پیدا کردہ قحط کے دوران زندگی بچانے والی امداد میں جان بوجھ پر رکاوٹ ہے۔‘

اسرائیل نے اے ایف پی کی جانب سے لازارینی کے بیان پر فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ فوڈ سکیورٹی کے جائزے میں متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر فوری مداخلت نہ کی گئی تو مئی تک غزہ کے شمالی حصے میں قحط پڑنے کا خدشہ ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی رابطہ دفتر کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے اتوار کو ایکس پر کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے ’غزہ میں انسانی ہمدردی کی کارروائیوں کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شمال کی طرف اس کے غذائی قافلوں کو روکنے کا فیصلہ ہزاروں لوگوں کو صرف قحط کے قریب لے جائے گا۔ اسے منسوخ کیا جانا چاہیے۔‘

اتوار کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے غزہ کی بدترین جارحیت میں 24 لاکھ افراد کے ’مسلسل ڈراؤنا خواب‘ کو ختم کرنے پر زور دیا۔

اسرائیل نے یو این آر ڈبلیو اے کے عملے کے ارکان پر سات اکتوبر کے حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے اور ایجنسی کو ’حماس کے لیے ڈھال‘ قرار دیا ہے۔

یو این آر ڈبلیو اے کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولیٹ ٹوما کہا کہ اسرائیلی حکام نے اتوار کو اقوام متحدہ کی اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شمالی غزہ کے الشفا ہسپتال، جہاں تقریبا ایک ہفتے سے لڑائی جاری ہے، میں ایک ٹیم بھیجی جائے’تاکہ زخمیوں کو وہاں سے نکالا جا سکے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا