ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ ہدایت اللہ لہر جن کو عام طورپر ہدایت لوہار کے طور پر بھی جانا جاتا تھا کے قتل کی بظاہر ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا مشن ہدایت اللہ لوہار کی صاحبزادیوں سے واقعے کی تفصیل دریافت کر رہا ہے (ایچ آر سی پی)

حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کا کہنا ہے کہ نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے استاد ہدایت اللہ لہر کا قتل قوم پرست سرگرمیوں سے منسلک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا۔

ہدایت اللہ لہر کو 16 فروری 2024 کو نصیر آباد میں موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

پیر کو کراچی پریس کلب میں ہدایت اللہ لہر کے قتل پر جاری کی جانے والی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ ہدایت اللہ لہر جن کو عام طورپر ہدایت لوہار کے طور پر بھی جانا جاتا تھا کے قتل کی بظاہر کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی۔

رپورٹ میں ہدایت اللہ لوہار کے اہل خانہ کی گواہیوں اور واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس کی ابتدائی ہچکچاہٹ پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

عدالت نے قتل کے تقریباً دو ہفتے بعد واقعے کی ایف آر درج کرنے کی ہدایت کی ہے۔

حقوق انسانی کی تنظیم کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہدایت اللہ کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا بلکہ یہ ایک لمبی منصوبہ بندی ہے ماضی میں بھی ہدایت اللہ لوہار کو اغوا کرایا جاتا رہا ہے۔ یہ بے رحمانہ قدم ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،  یہ ماورائے عدالت قتل ہے ہدایت اللہ ایک آزادانہ سوچ رکھتے تھے۔‘

چیئرمین اسد اقبال بٹ نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ قتل کے خلاف دھرنا دینے پر حراست میں لیے گئے مظاہرین، جن میں ہدایت اللہ کے دو بیٹے بھی شامل ہیں، کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور انہیں پرامن اجتماع کی آزادی کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے جس کی وجہ سے انہیں دو بار جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد نے اپنے کالم میں ہدایت اللہ لوہار پر حملے کے حوالے سے تفصیل سے لکھا کہ ’دو افراد جو 125 سی سی موٹر سائیکل پر سوار تھے کہیں سے اچانک نمودار ہوئے اور ہدایت لوہار کو راستے میں روکا۔ پھر ان میں سے ایک فرد نے اپنے سمارٹ فون سے کہیں ویڈیو کال کی اور ہدایت لوہارکا چہرہ موبائل پر کسی فرد کو دکھایا۔ شاید اس شخص نے ہدایت کی تصدیق کر دی۔ ان میں سے ایک شخص نے ہدایت کے چہرے پر گولیاں چلائیں۔ ہدایت اللہ کے چہرے پر تین گولیاں ماری گئیں اور ایک گولی ان کی گردن پر لگی۔‘

ہدایت اللہ لوہار ایک ممتاز سندھی کارکن اور سندھیوں کی مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے حامی تھے۔ وہ تمام مظلوموں کی طرف سے اپنی جرات مندانہ مہمات کے لیے مشہور تھے۔

دو سال سے زائد عرصے تک، 17 اپریل 2017 سے 28 مئی 2019 تک، انہیں سندھ کے لوگوں کی بنیادی آزادیوں کے لیے سرگرم ہونے کی وجہ سے اغوا کیا گیا اور ’غائب‘ کر دیا گیا تھا۔

رہائی کے بعد لوہار نے بتایا کہ ان پر شدید تشدد کیا گیا تھا۔ طبی پیچیدگیوں اور ان کے جسم پر نشانات نے اس کی تصدیق کی۔

ان کے اغوا کے دوران، ان کی قربانی اور لگن کی مشعل ان کی دو بیٹیوں سورتھ اور ساسوئی نے اٹھائی اور وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی قیادت کی۔

دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بھی ہدایت اللہ قتل کے حوالے سے مختلف حلقوں سے وابستہ لوگ اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان