کشمیری وازوان (یعنی مختلف ڈشز کا مجموعہ) میں موجود سب سے اہم ڈش ’گوشتابہ‘ پوری دنیا میں مشہور اور رمضان المبارک میں سحری و افطاری میں کشمیریوں کا مرغوب پکوان ہے۔
لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ قدیمی طور پر گوشتابہ بنانے کے لیے کون سا گوشت استعمال کیا جاتا ہے اور اصلی گوشتابہ کا ذائقہ اس گوشت کے ساتھ کیوں مشروط ہے۔
کشمیری کھانوں کے لشکر وازوان میں گوشتابہ کو وازوان کا ’بادشاہ‘ مانا جاتا ہے۔
کشمیری وازوان میں کم از کم 26 سے 30 اور زیادہ سے زیادہ 120 ڈشز ہوسکتی ہیں۔
اگر وازوان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وازوان کی تاریخ چودھویں صدی سے شروع ہوکر پندرویں صدی کے وسط تک آتی ہے۔ ثمرقند سے وادی میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی کشمیری کھانوں میں جدت اور ذائقے کا وہ انقلاب برپا ہوا جس کا چرچا آج تک جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وازوان میں کم از کم 30 ڈشز صرف گوشت سے تیار ہوتی ہیں اور اگر آپ کو کہیں کشمیری وازوان کھانے کا اتفاق خالصتاً کشمیری سٹائل میں ہو تو ایک گھنٹہ مختلف ڈشز کے چلنے والے کورس میں گوشتابہ کو سب سے آخر میں مہمانوں کے سامنے شاہانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس کے آتے ہی وازوان کے اختتام کا اعلان ہوتا ہے۔
گوشتابہ دنیا میں مختلف طریقوں اور مختلف گوشت سے بنایا جاتا ہے لیکن دراصل اس کشمیری ڈش میں کشمیری قدیمی طور پر صرف ’بکرے‘ کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔
وازوان پکانے والے ماہر کشمیری جنہیں ’وستہوازا‘ کہا جاتا ہے وہ بتاتے ہیں کہ گوشتابہ کا اصل ذائقہ اس میں استعمال کیے جانے والے بکرے کے گوشت سے مشروط ہے۔
وازوان میں استعمال کیے جانے والے گوشت کو حاصل کرنے کے لیے جس بکرے کا انتخاب کیا جاتا ہے اس کی ایک مخصوص عمر کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ بکرا اگر اس عمر سے زائد ہو گا تو اس سے حاصل کردہ گوشت سے ذائقے کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پائیں گے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک پورا بازار موجود ہے جس میں صرف گوشتابہ تیار کرنے کی مختلف دکانیں موجود ہیں۔ اس بازار کو ’گوشتابہ گلی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس بازار میں گوشتابہ تیار کرنے کی کم و بیش 50 سے زائد دکانیں موجود ہیں۔
اسی بازار میں موجود گوشتابہ تیار کرنے والے ایک ماہر باورچی عابد عباسی نے گوشتابہ کی تیاری سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اصل میں گوشتابہ صرف چھوٹے گوشت یعنی بکرے کے گوشت سے تیار کیا جاتا ہے۔
عابد حسین عباسی کے مطابق ’بکرے کے جسم میں سے مخصوص جگہ صرف ’ران‘ کا گوشت ہی گوشتابہ کے لیے موزوں ہوتا ہے۔
’گوشتابہ کے اصلی اور روائتی ذائقے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بکرے کی ران کا گوشت تازہ ہو اور وہ بکرا جس نے بلوغت کی عمر کو ابھی ہی چھوا ہو یعنی نوجوان ہو اسے ذبح کیا جائے اسی بکرے کا گوشت گوشتابہ کی تیاری میں استعمال کیا جائے اور گوشتابہ کا اصل ذائقہ ایسے ہی گوشت سے مشروط ہے۔‘
عابد کے مطابق وہ صبح سویرے مارکیٹ جاتے ہیں جہاں چھان پھٹک کر ایسے بکرے کے گوشت کا انتخاب کرتے ہیں جو گوشتابہ کے لیے موزوں ہو۔
’ایسے بکرے کی کی ران کا گوشت خریدنے کے بعد دکان پر پہنچایا جاتا ہے جس کے بعد گوشت سے چربی الگ کر کے صاف کرنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
’گوشت کی صفائی کے بعد اسے بوٹیوں میں کاٹ کر پتھر کی سِل جسے ’کوٹ پتھ‘ (کوٹنے والا پتھر) کہا جاتا ہے، اس پر لکڑی کے ایک ہتھوڑے سے کوٹا جاتا ہے۔ لکڑی کے اس ہتھوڑے کو ’موگرا‘ کہتے ہیں اور یہ اخروٹ کے تنے کی مخصوص لکڑی سے بنتا ہے۔
’پتھر کی سل پر اس ہتھوڑے کی مدد سے گوشت کو کوٹنے کا عمل کئی گھنٹوں اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک گوشت کا ریشہ الگ ہو کر مکمل قیمہ نہ بن جائے۔‘
ان کے مطابق ’گوشت کا قیمہ تیار ہونے کے بعد اس میں مصالحہ جات ملائے جاتے ہیں ان مصالحہ جات میں کالی مرچ، الائچی و دیگر کو ایک مخصوص مقدار میں پیس کر پہلے سے ہی تیار کر دیا جاتا ہے۔‘
عابد کا کہنا ہے کہ ’گوشت میں مصالحہ ملانا بہت اہم حصہ ہے۔ اگر گوشتابہ میں ملائے جانے والے مصالحہ کی مقدار کم یا زیادہ ہو جائے تو اس کا اثر گوشتابہ کے ذائقے پر پڑتا ہے۔‘
’گوشتابہ کے لیے تیار کردا قیمہ میں مصالحہ ملانے کے بعد اس کو ایک بار پھر کوٹا جاتا ہے تا کہ مصالحہ جات گوشت کے ساتھ اچھے سے مکس ہوجائیں۔
’گوشت مصالحہ ملا کر کوٹنے کے بعد اس گوشت کے مخصوص سائز کے گولے بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔‘
عابد عباسی نے بتایا کہ ’اگر گوشتابہ کے گولے ٹھیک سائز میں نہ بنائے جائیں تو تیاری کے دوران یہ ٹوٹ جاتا ہے لہٰذا گولہ مخصوص سائز کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت زیادہ بڑا نہ بہت زیادہ چھوٹا کیوں کہ اگر گوشتابہ بہت زیادہ بڑا ہو تو پکائی کے دوران اس میں کچہ پن رہنے کا خدشہ ہوتا ہے۔‘
’تیار شدہ قیمہ کے مخصوص سائز میں گولے بنانے کے بعد ان گوشت کے گولوں یعنی گوشتابہ کو چولہے پر رکھے گرم پانی میں ابالہ جاتا ہے۔
’ابلتے پانی میں بھی الائچی اور سونف پہلے سے ڈالے جاتے ہیں تا کہ گوشتابہ میں ابالتے وقت اس میں سے گوشت کی مخصوص بو کو ختم کیا جاسکے۔
’ایک گھنٹہ تیس منٹ تک پانی میں ابلنے کے بعد گوشتابہ تیار ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے پانی سے نکال کر کھلے برتن میں ٹھنڈا ہونے کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ ٹھنڈا ہونے کے بعد گوشتابہ فروخت کے لیے تیار ہے۔
’پانی میں ابلنے کے بعد تیار ہوئے گوشتابہ کو مختلف طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔‘
عابد عباسی کہتے ہیں کہ ’گوشتابہ کو پالک، نیدرو، میتھی کے ساتھ بھی پکایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’پیلے سالن‘ یعنی پیاز ٹماٹر اور لہسن کے ساتھ بھی تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن وازوان میں اسے صرف دہی کی یخنی میں ہی تیار کیا جاتا ہے اور اسے ہی اصل ’کشمیری گوشتابہ‘ کہتے ہیں۔‘
روائتی کشمیری کھانے بنانے والے غلام نبی وان جو کہ 45 سال سے مظفرآباد کے ایک مقامی ہوٹل پر کشمیری کھانے بنا رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ وزاوان کے بادشاہ گوشتابہ کو ’دہی کی یخنی میں تیار کرنا بھی ایک فن ہے۔‘
’سب سے پہلے بھینس کے دودھ سے بنے دہی کو جوسر مشین یا مداہنی کی مدد سے اتنا پھینٹا جاتا ہے کہ اس کی ڈلی ٹوٹ جائے۔ اس کے بعد اس میں گھی، الائچی، کالی مرچ اور حسب ضرورت مصالحہ ڈال کر اسے ہلکی آنچ پر ڈیڑھ گھنٹہ پکایا جاتا ہے۔
وان کا کہنا ہے کہ ’یخنی پر چڑھے دہی میں اس وقت گوشتابہ شامل کیا جاتا ہے جب گھی دہی کو چھوڑ دے۔ گوشتابہ ملانے کے بعد 30 منٹ ہلکی آنچ پر ابالا دینے کے بعد گوشتابہ کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن اس سارے پکائی کے عمل میں اس بات کا خاص دھیان رکھا جاتا ہے کہ دہی کی یخنی پتیلے سے نہ لگے اور نہ جلے جس کے لیے چمچے سے اسے ہلکی رفتار سے مسلسل ہلایا جاتا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔