کیجریوال کی گرفتاری پر تنقید، امریکہ کا پیچھے ہٹنے سے انکار

امریکہ نے کہا ہے کہ انڈین رہنما اروند کیجریوال کے خلاف آزادانہ مقدمے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

26 مارچ2024ء, عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ کے قریب احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں نے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے کارکنوں کو حراست میں لے لیا (اے ایف پی)
 

امریکہ نے نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک دن قبل انڈیا نے اعلیٰ امریکی سفارت کار کو طلب کر کے واشنگٹن کی جانب سے نئی دہلی کے اعلیٰ سیاست دان اور انڈین وزیر اعظم نریندرمودی کے سیاسی حریف کے خلاف مقدمے پر تبصرے پر احتجاج کیا تھا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کو پریس بریفنگ میں کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نئی دہلی کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، جس میں کیجریوال پر مقدمہ چلانا اور حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا شامل ہیں۔

انڈیا کی فنانشل کرائم ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے قومی سطح پر حزب اختلاف کی اہم شخصیت اور دارالحکومت کے وزیر اعلیٰ کیجریوال کو گذشتہ ہفتے شراب پالیسی کیس میں بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

یہ گرفتاری ایسے وقت کی گئی جب ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جو وزیر اعظم مودی کی ملک پر آہنی گرفت کے لیے بڑی آزمائش ہے۔

ملر کا کہنا تھا کہ ’ہم دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال کی گرفتاری سمیت ان کارروائیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم کانگریس پارٹی کے ان الزامات سے بھی آگاہ ہیں کہ ٹیکس حکام نے ان کے کچھ بینک اکاؤنٹس کو اس طرح منجمد کر دیا ہے جس سے آنے والے انتخابات میں مؤثر طریقے سے مہم چلانا مشکل ہو جائے گا، اور ہم ان میں سے ہر معاملے میں منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘

امریکی عہدے دار انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے سینیئر امریکی سفارت کار گلوریا بربینا کی طلبی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔ اس سے پہلے واشنگٹن نے نئی دہلی کو کیجریوال کے معاملے میں ’منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی کارروائی‘ کرنے کی تنبیہ کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملر نے کہا کہ اگرچہ وہ کسی بھی نجی سفارتی بات چیت کے بارے میں بات نہیں کریں گے لیکن محکمہ خارجہ ’منصفانہ ، شفاف، بروقت قانونی عمل‘ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

پہلے ہی سرعام کیے گئے امریکی تبصرے کو دہرانے پر انڈیا نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔

ملر کے مطابق: ’ہمیں نہیں لگتا کہ کسی کو اس پر اعتراض کرنا چاہیے، اور ہم پرائیویٹ طور پر اسی نکتے کو واضح کریں گے۔‘

انڈین خبر رساں اداروں کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بربینا کو وزارت خارجہ میں ملاقات کے لیے طلب کیا گیا جو تقریباً 40 منٹ تک جاری رہی۔

گذشتہ ہفتے جرمنی کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ کیجریوال کے خلاف منصفانہ اور غیر جانبدارانہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

تاہم انڈیا کی وزارت خارجہ نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ ملک کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت ہے۔

دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کو کیجریوال کی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو تحویل کی مدت میں یکم اپریل تک اضافہ کر دیا ہے۔

کیجریوال ان درجنوں سیاست دانوں میں شامل ہیں جنہیں انڈیا میں نئی حکومت کے قیام کے لیے 19 اپریل سے شروع ہونے والی پولنگ سے قبل مودی کی وفاقی حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔

کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے ان پر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے دہلی کے مقبول سیاست دان کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی چال قرار دیا ہے۔

کجریوال کی پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرتے رہیں گے اور معاملہ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

مزید برآں ماضی میں انڈیا کی حکمران جماعت اور اب اہم اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی کانگریس پارٹی نے گذشتہ ہفتے کہا کہ انڈیا محکمہ انکم ٹیکس نے اس کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے ہیں جو مودی کے ’جمہوریت کو قتل کرنے‘ کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

کانگریس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا پارٹی ’بری طرح‘ متاثر ہو گی کیوں کہ مودی کے خلاف اہم انتخابات سے قبل اخراجات کے لیے اس کے پاس پیسے ہوں گے۔

 عام انتخابات میں مودی کے تیسری بار اقتدار میں واپس آنے کا امکان ہے۔

واشنگٹن کی جانب سے انڈین حکومت کو سیاسی مخالفین کے لیے آزاد انہ اور منصفانہ قانونی عمل پر عمل کرنے کی یاد دہانی ایسے وقت  سامنے آئی ہے جب وہ دنیا بھر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں دہلی کو اہم سٹریٹیجک اور معاشی شراکت دار کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا