میانوالی کی ’دیوارِ احساس‘ جہاں مستحق کو عید کے کپڑے دستیاب

اس دیوارِ احساس پر معمول کے برعکس پرانے اور استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کی بجائے رمضان میں عید کے لیے مرد، خواتین اور بچوں کے لیے ہر سائز اور قسم کے نئے کپڑے لٹکائے جاتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں دیوارِ رحمت، دیوارِ شفقت اور دیوارِ مہربانی کے نام سے مستحق شہریوں کے لیے پہننے اوڑھنے کا سامان حاصل کرنے کے مراکز دکھائی دیتے ہیں۔

عموماً ان دیواروں پر مخیر حضرات کی جانب سے عطیہ کردہ مختلف استعمال شدہ پہناوے، پرانے جوتے اور چیزیں لٹکائی یا رکھی جاتی ہیں۔

پنجاب کے ضلع میانوالی کے علاقے کندیاں میں بھی گذشتہ تین سال سے مقامی سماجی شخصیت امجد ہاشمی کی جانب سے کندیاں کے معروف جرنیلی روڈ پر واقع بازار میں دیوارِ احساس قائم کی گئی ہے۔

اس دیوارِ احساس پر معمول کے برعکس پرانے اور استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کی بجائے رمضان میں عید کے لیے مرد، خواتین اور بچوں کے لیے ہر سائز اور قسم کے نئے کپڑے لٹکائے جاتے ہیں۔

یہاں روزانہ مستحق مرد، خواتین اور بچے اپنی ضرورت کے مطابق عید کے لیے نئے کپڑے اور جوتے مفت لے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دیوارِ احساس کے منتظم امجد ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب ہم نے یہ قدم اٹھایا تھا تو پہلے استعمال شدہ کپڑے لگاتے تھے لیکن گذشتہ تین سال سے میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ عید کے موقعے پر ہم نادار و مستحق لوگوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔

’اس خیال کو میں نے اپنے تاجر بھائیوں سے شیئر کیا کہ اگر آپ تعاون کریں کیونکہ آپ کے تعاون کے بغیر مشکل ہے۔ گارمنٹس کے تاجروں کو اللہ خوش رکھے انہوں نے میری تجویز کو سراہا اور میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور گذشتہ تین سال سے میرے ساتھ بے حد تعاون کر رہے ہیں۔‘

بقول امجد ہاشمی: ’ہمارے شہر کندیاں کے لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اپنے بیش بہا بچوں اور بڑوں کے، مردانہ اور زنانہ جوڑے خیرات کرتے ہیں جبکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ 24 گھنٹے دیوارِ احساس لگی رہتی ہے۔‘

اس دیوار سے اپنے بچوں کے لیے کپڑے حاصل کرنے والے میانوالی کے رہائشی عبدالرزاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دیوارِ احساس سے بچوں کے لیے عید کے کپڑے لے کر جا رہے ہیں۔ جس نے بھی یہ کام کیا ہے۔ بہت اچھا اقدام کیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بچوں کے لیے ہمارے پاس اتنے پیسے اور مزدوری یا حساب کتاب نہیں ہے، جن سے ہم انہیں نئے کپڑے خرید کر دے دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان